جس ملک میں عربی زبان نہیں بولی جاتی...

Egypt's Dar Al-Ifta

جس ملک میں عربی زبان نہیں بولی جاتی وہاں ایک ہی غیر عربی خطبے کے ساتھ نمازِ جمعہ ادا کرنے کا حکم

Question

ایسی ریاست میں جہاں عربی زبان بولی نہیں جاتی، وہاں صرف ایک غیر عربی خطبے کے ساتھ جمعہ کی نماز ادا کرنے کا کیا حکم ہے؟ ایک شخص کام کے سلسلے میں ایک غیر عربی ملک گیا، اور وہاں مسلمانوں کی ایک بستی میں قیام کیا۔ جب وہ جمعہ کی نماز کے لیے مسجد میں داخل ہوا تو اُس نے دیکھا کہ خطیب عربی کے علاوہ کسی اور زبان میں خطبہ دے رہا ہے، اور صرف ایک ہی خطبے پر اکتفا کیا گیا۔ وہ شخص پوچھ رہا ہے کہ کیا اس طریقے سے ادا کی جانے والی جمعہ کی نماز درست ہے؟

Answer

الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی سیدنا رسول اللہ وعلى آلہ وصحبہ ومن والاہ وبعد؛
صرف ایک غیر عربی خطبے کے ساتھ جمعہ کی نماز شرعی طور پر درست اور صحیح ہے، اور جس نے بھی امام کے ساتھ یہ نماز ادا کی اُس کی نماز ادا ہو گئی، خواہ وہ مذکورہ شخص ہو یا دیگر مقتدی۔ اس میں اُن پر کوئی گناہ یا شرعی ممانعت نہیں۔ البتہ افضل یہی ہے کہ دو خطبے دیے جائیں تاکہ فقہائے کرام کے اختلاف سے بچا جا سکے۔

تصیل:

جمعہ کے خطبے کو غیر عربی زبان میں ادا کرنے کا حکم

یہ شرعاً طے شدہ بات ہے کہ مسلمانوں کی عبادات پر شرعی حکم لاگو کرنے کے لیے ان کے حالات اور اُن کے ہاں رائج فقہی مذاہب کو جاننا ضروری ہوتا ہے۔ تمام فقہی مذاہب جنت تک پہنچنے کے راستے اور سعادتمندی کے ذرائع ہیں۔ جو شخص ان میں سے کسی پر بھی چلتا ہے، وہ اسے منزل تک پہنچا دیتا ہے۔" جیسا کہ امام ابو عمران زَناتیؒ (وفات: 430ھ) نے فرمایا، جسے امام شِہاب الدین قَرافیؒ نے اپنی کتاب الذخيرة (جلد 1، صفحہ 140، مطبوعہ دار الغرب الإسلامي) میں نقل کیا ہے

اور سوال میں مذکور جمعہ کے خطبے کی صورت شرعاً درست ہے، کیونکہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے منقول ہے کہ جمعہ کا خطبہ عربی زبان کے علاوہ کسی اور زبان میں دینا مطلق طور پر جائز ہے، خواہ خطیب عربی زبان جانتا ہو اور اس میں گفتگو کر سکتا ہو یا نہ جانتا ہو، جیسا کہ امام برہان الدین ابن مازہ رحمہ اللہ کی کتاب المحيط البرهاني (جلد ۲، صفحہ ۷۴، دار الكتب العلمية) میں مذکور ہے

امام ابو حنیفہؒ کے اس قول کی موافقت ان کے دونوں شاگردوں، امام قاضی ابو یوسفؒ اور امام محمد بن حسنؒ نے بھی کی ہے کہ جمعہ کا خطبہ غیر عربی زبان میں دینا جائز ہے، بشرطیکہ خطیب عربی میں خطبہ دینے سے عاجز ہو۔
اسی طرح شوافع کے نزدیک بھی ایک رائے یہی ہے— اور امام اذرعی نے اس رائے کو اس صورت میں قابل قبول قرار دیا ہے جب حاضرین اس زبان کو سمجھتے ہوں۔ یہی مذہب حنابلہ کا ہے، کیونکہ جمعہ کے خطبے کا اصل مقصد نصیحت اور یاددہانی ہے، اور یہ مقصد ہر زبان میں حاصل ہو سکتا ہے۔

امام ابن عابدین حنفیؒ نے اپنی کتاب رد المحتار (جلد 2، صفحہ 147، مطبوعہ دار الفكر) میں فرمایا: اضافہ: امام صاحب نے خطبہ عربی زبان میں ہونے کی قید نہیں لگائی، کیونکہ انہوں نے باب "صفتِ نماز" میں یہ بات پہلے ہی ذکر کر دی ہے کہ ان کے نزدیک خطبے کا عربی میں ہونا شرط نہیں، چاہے عربی پر قدرت حاصل ہو۔ برخلاف صاحبین(یعنی امام ابو یوسفؒ اور امام محمد بن حسنؒ) کے، جنہوں نے اس کے لیے عربی پر عاجز ہونے کی شرط لگائی ہے۔

امام نووی شافعیؒ نے اپنی کتاب المجموع (جلد 4، صفحہ 521-522، مطبوعہ دار الفكر) میں فرمایا: کیا خطبے کا عربی زبان میں ہونا شرط ہے؟ اس مسئلے میں دو طریقے (آراء) ہیں: ان میں سے صحیح تر رائے) — اور اسی پر جمہور (اکثر علماء) نے قطعی طور پر فتویٰ دیا ہے — یہ ہے کہ عربی ہونا شرط ہے۔ دوسری رائے میں دو اقوال ہیں، جنہیں متعدد علماء نے نقل کیا ہے، ان میں سے ایک امام متولیؒ بھی ہیں: پہلا قول یہی ہے کہ عربی شرط ہے، اور دوسرا قول یہ ہے کہ عربی میں ہونا مستحب ہے، شرط نہیں؛ کیونکہ خطبے کا اصل مقصد نصیحت ہے، اور یہ مقصد ہر زبان میں حاصل ہو سکتا ہے۔

امام جلال الدین محلی شافعیؒ نے شرح منهاج الطالبين (جلد 1، صفحہ 322، مطبوعہ دار الفكر، مع حاشیہ قلیوبی وعمیرہ) میں جمعہ کے خطبے کی شرائط بیان کرتے ہوئے فرمایا: اور شرط یہ ہے کہ خطبہ مکمل طور پر عربی زبان میں ہو، جیسا کہ لوگوں کا معمول چلا آ رہا ہے۔
اور ایک قول یہ بھی ہے کہ عربی شرط نہیں؛ کیونکہ اصل اعتبار مفہوم (معنی) کا ہے۔]

شیخ شِہاب الدین عمیرہؒ نے اس پر اپنی حاشیہ میں لکھا: ان کے قول (اور ایک قول یہ بھی ہے کہ شرط نہیں...) کے متعلق امام اذرعیؒ نے فرمایا: "شاید جب سامعین اُس زبان کو سمجھتے ہوں تو یہ صورت ہو سکتی ہے۔

امام ابو السعادات بُہوتی حنبلیؒ نے اپنی کتاب کشاف القناع (جلد 2، صفحہ 35-36، مطبوعہ دار الكتب العلمية) میں فرمایا: اور خطبہ غیر عربی زبان میں درست ہوتا ہے جب عربی میں دینے سے عاجز ہو، کیونکہ خطبے کا مقصد نصیحت، یاد دہانی، اللہ کی حمد و ثنا اور رسول اللہ ﷺ پر درود و سلام بھیجنا ہے۔

جمعہ کی نماز میں صرف ایک خطبہ پر اکتفا کرنے کا حکم

صرف ایک خطبہ پر اکتفا کرنا حنفیہ اور مالکیہ کے نزدیک جائز ہے، اور یہ امام احمد کے قول کے مطابق بھی ہے۔ یہی قول امام عطاء بن ابی رباح، امام اوزاعی، امام اسحاق بن راہویہ، امام ابی ثور اور امام ابن المنذر کا بھی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خطبے کا مقصد ذکر اور نصیحت ہے، جیسا کہ پہلے ذکر کیا جا چکا ہے۔ البتہ، بغیر کسی عذر کے اس پر اکتفا کرنا مکروہ ہے، اور افضل یہ ہے کہ دو خطبے دیے جائیں تاکہ مأثور عمل کی پیروی کی جائے اور فقہاءِ کرام کے درمیان اختلاف سے بچا جا سکے۔

امام فخر الدین زَیْلَعِي حنفیؒ نے تبیین الحقائق (جلد 1، صفحہ 220، مطبوعہ الأميریہ) میں فرمایا: اگر خطیب نے صرف ایک خطبہ دیا ہو، یا دونوں خطبوں کے درمیان نہیں بیٹھا، یا طہارت کے بغیر خطبہ دیا، یا کھڑے ہو کر نہیں دیا، تو بھی جائز ہے؛ کیونکہ اس کا مقصد یعنی ذکر اور نصیحت حاصل ہو جاتا ہے، مگر یہ مکروہ ہے کیونکہ یہ مروجہ طریقے کے خلاف ہے۔

امام بدر الدین عَینِي حنفیؒ نے البنایہ (جلد 3، صفحہ 55، مطبوعہ دار الكتب العلمية) میں فرمایا: ہمارے نزدیک ایک خطبہ دینا جائز ہے، اور یہی قول امام عطاء، امام مالک، امام اوزاعی، امام اسحاق، اور امام ابو ثور کا ہے۔ ابن المنذرؒ نے کہا: "مجھے امید ہے کہ ایک خطبہ کافی ہوگا۔

شیخ العدوي مالکیؒ نے حاشیتہ على كفاية الطالب الرباني (جلد 1، صفحہ 373، مطبوعہ دار الفكر) میں فرمایا: ان کا قول (دونوں خطبے دینا مشہور قول ہے) اس کے مقابلے میں امام مالکؒ کا قول ہے جو الواضحة'' میں مذکور ہے، آپ نے فرمایا: "سنت یہ ہے کہ دو خطبے دیے جائیں، لیکن اگر دوسرا خطبہ بھول جائے یا چھوڑ دیا جائے تو یہ ان کے لیے کافی ہو جائے گا۔" یہ قول شیخ بہرامؒ نے بیان کیا ہے۔

امام ابن قدامہ حنبلیؒ نے المغنی (جلد 2، صفحہ 225، مطبوعہ مكتبة القاهرة) میں فرمایا: جمعہ کے لیے دو خطبے شرط ہیں، اور یہی قول امام شافعیؒ کا ہے۔ امام مالکؒ، امام اوزاعیؒ، امام اسحاقؒ، امام ابو ثورؒ، امام ابن المنذرؒ اور اصحاب الرائے کا کہنا ہے کہ ایک خطبہ کافی ہے۔ امام احمدؒ سے بھی ایسا کچھ منقول ہے جو اس کے حق میں ہے، کیونکہ انہوں نے فرمایا: "خطبہ ایسا ہو جیسا کہ نبی اکرم ﷺ نے خطبہ دیا، یا پھر مکمل خطبہ ہو۔

امام فخر الدین زَیْلَعِي حنفیؒ نے تبیین الحقائق (جلد 1، صفحہ 220) میں فرمایا: یہ روایت کئی صحابہ کرامؓ سے نقل کی گئی ہے کہ انہوں نے جمعہ کے دن صرف ایک خطبہ دیا، جن میں علیؓ، مغیرہؓ اور ابیؓ شامل ہیں، اور ان پر اس بات پر کوئی اعتراض نہیں کیا گیا۔

خلاصہ

اس بنا پر، سوال میں ذکر کردہ طریقے سے جمعہ کی نماز شرعاً صحیح ہے، پس سوال میں مذکور طریقے کے مطابق ادا کی گئی جمعہ کی نماز شرعًا درست ہے، اور اس شخص سمیت جو بھی اس امام کے ساتھ حاضر ہوا، تمام مقتدیوں کے لیے یہ خطبہ کافی ہے۔ اس میں ان پر نہ کوئی گناہ ہے اور نہ ہی کوئی حرج۔ تاہم بہتر یہ ہے کہ دو خطبے دیے جائیں تاکہ فقہاء کے اختلاف سے بچا جا سکے۔

والله سبحانه وتعالى أعلم.

Share this:

Related Fatwas