غصب شدہ بکری کی قربانی کرنے کا حکم
Question
غصب شدہ بکری کی قربانی کرنے کا کیا حکم ہے؟
Answer
الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی سیدنا رسول اللہ وعلى آلہ وصحبہ ومن والاہ وبعد؛
قربانی عبادتوں میں سے ایک عبادت ہے، اور اللہ تعالیٰ پاک ہیں، وہ صرف پاکیزہ چیز کو ہی قبول فرماتے ہیں، تاہم غصب شدہ بکری سے قربانی کرنا بھی درست اور شرعًا صحیح ہے، بشرطیکہ اس کی قیمت مالک کو ادا کر دی جائے، جیسا کہ احناف، مالکیہ اور ان کے موافق علماء کا موقف ہے۔
تفصیل
قربانی کا مفہوم:
(أضحية)یعنی قربانی لغوی طور پر "الضحوة" (دن کے ابتدائی وقت) سے ماخوذ ہے، اور اسے ان جانوروں پر بولا جاتا ہے جو قربانی کے طور پر ذبح کیے جائیں، کیونکہ قربانی کا وقت دن کے آغاز میں ہوتا ہے۔ اس کی ہمزہ کو پیش اور زیر دونوں کے ساتھ پڑھا جاتا ہے، اور دیگر لغات بھی ہیں۔ (حوالہ: "المصباح المنیر" علامہ فیومی)
اور فقہاء کی اصطلاح میں قربانی اس جانور کو کہتے ہیں جسے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کے لیے مخصوص شرائط کے ساتھ ذبح کیا جائے۔ (حوالہ: "مغنی المحتاج" امام خطیب شربینی)
غصب شدہ بکری کی قربانی کرنے کا حکم اور اس بارے میں فقہاء کے اقوال:
"نَعَم" (مویشی) سے مراد اونٹ، گائے (جس میں بھینس بھی شامل ہے) اور بکریاں (جن میں بھیڑ اور بکری دونوں شامل ہیں) ہیں۔ لہٰذا قربانی انہی تین اقسام کے جانوروں میں سے ہونا درست ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿وَلِكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَكًا لِيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَى مَا رَزَقَهُمْ مِنْ بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ﴾ ترجمہ: "اور ہم نے ہر امت کے لیے قربانی مقرر کی ہے تاکہ وہ ان جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ نے انہیں چوپایوں میں سے عطا فرمائے ہیں۔" (الحج: 34)
اور چاہیے کہ قربانی حلال اور پاکیزہ مال سے کی جائے، کیونکہ قربانی عبادتوں میں سے ایک عبادت ہے، اور اللہ تعالیٰ پاک ہیں، وہ صرف پاکیزہ چیز کو ہی قبول فرماتے ہیں۔ فقہاء کا غصب شدہ بکری کی قربانی کرنے کے حکم میں اختلاف ہے، کیونکہ قربانی کے لیے یہ شرط ہے کہ جانور ذبح کے وقت قربانی کرنے والے کی ملکیت میں ہو، اور دوسرے کے مال میں ذبح کرنے سے قربتِ الٰہی حاصل نہیں ہوتی۔
احناف اور مالکیہ کا موقف یہ ہے کہ اگر غاصب غصب شدہ بکری کی قیمت کا تاوان ادا کر دے اور مالک کو اس کا عوض دے دے تو اس کی قربانی درست ہو جائے گی، کیونکہ ضمان (تاوان) کا اختیار کرنا یا اس کی ادائیگی کرنا غاصب کے لیے غصب کے وقت سے ہی ملکیت ثابت کر دیتا ہے، لہٰذا ذبح کے وقت وہ اس جانور کا مالک شمار ہوگا۔
امام کاسانی حنفی نے اپنی کتاب "بدائع الصنائع" (5/76، مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ) میں فرمایا: "اگر مالک نے غاصب پر زندہ بکری کی قیمت کا تاوان لازم کر دیا تو ذبح کرنے والے کی قربانی درست ہو جائے گی؛ کیونکہ اس نے ضمان (تاوان) کے ذریعے غصب کے وقت سے ہی بکری کی ملکیت حاصل کرلی ہے، ظاہری اور استنادی طریقے سے۔ تو گویا اس نے ایسی بکری ذبح کی جو اس کی اپنی ملکیت تھی، لہٰذا قربانی درست ہو جائے گی۔ تاہم وہ گناہگار ہوگا کیونکہ اس کا ابتدائی عمل (یعنی غصب) ممنوع تھا، اس لیے اس پر توبہ اور استغفار لازم ہے، اور یہی ہمارے تینوں ائمہ (امام ابو حنیفہ، امام ابو یوسف، امام محمد رحمہم اللہ) کا قول ہے۔
علامہ حطاب مالکی نے اپنی کتاب "مواهب الجليل" (3/253، مطبوعہ دار الفكر) میں فرمایا:
"دوسرا مسئلہ: اگر کسی نے بکری غصب کی، پھر اسے ذبح کیا اور مالک نے اس کی قیمت لے لی، تو کیا اس کی قربانی درست ہوگی کیونکہ اس نے غصب کا تاوان دے دیا؟ یا درست نہیں ہوگی، کیونکہ یہ عدوانی ضمان ہے؟ عبد الحق نے کہا: پہلا قول زیادہ واضح ہے، جیسے 'التوضیح' میں ذکر کیا گیا ہے۔
علامہ مواق مالکی نے "التاج والإكليل" میں کہا ہے کہ اگر کسی نے بکری غصب کی، پھر اسے ذبح کیا اور مالک نے اس کی قیمت وصول کر لی، تو قربانی درست ہو جائے گی۔ ابن یونس اور ابن المواز نے ابن القاسم کے قول کو ذکر کیا ہے کہ اگر غاصب بکری کی قیمت ادا کر دے، تو قربانی درست نہیں ہوگی۔ تاہم، علامہ مواق کا کہنا ہے کہ اگر مالک قیمت لے لے، تو قربانی جائز ہو جائے گی۔ یہ موقف "التاج والإكليل" میں بیان کیا گیا ہے۔
حنابلہ کا خیال ہے کہ غصب شدہ بکری کی قربانی کرنا جائز نہیں ہے، اور نہ ہی غاصب کی طرف سے اور نہ ہی مالک درست ہوگی، چاہے مالک راضی ہو یا نہ ہو، یا غاصب نے اس کی قیمت ادا کی ہو یا نہ کی ہو۔
ابن قدامہ حنبلی نے "المغنی" میں فرمایا کہ اگر کسی نے غصب کی بکری ذبح کی تو اس کی قربانی نہ ہوگی، چاہے مالک راضی ہو یا نہ ہو، یا غاصب نے قیمت ادا کی ہو یا نہ کی ہو۔ امام ابو حنیفہ کے مطابق اگر مالک راضی ہو تو غاصب کی قربانی جائز ہو سکتی ہے، لیکن حنبلی موقف کے مطابق اگر قربانی کی ابتدا ہی عبادت کے طور پر نہ ہو تو وہ بعد میں بھی عبادت نہیں بن سکتی۔ اس کی مثال دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ جیسے اگر کوئی جانور کھانے کے لیے ذبح کرے پھر اسے قربانی کے طور پر نیت کرے، یا غلام کو آزاد کرے پھر کفارے کے طور پر نیت کرے تو یہ جائز نہیں ہوگا۔
علامہ مرداوی حنبلی نے "الإنصاف" میں کہا کہ اگر کسی نے جان بوجھ کر یہ جانتے ہوئے کہ بکری دوسرے کی ہے، اپنی طرف سے قربانی کر دی، تو اس کی قربانی جائز نہیں ہوگی، کیونکہ وہ غصب کر رہا ہے اور دوسرے کا مال زیادتی کرتے ہوۓ ضائع کر رہا ہے۔
احناف میں سے امام زفر اور امام شافعی رضی اللہ عنہم کی رائے بھی حنبلی موقف سے ملتی جلتی ہے،
علامہ کاسانی نے "بدائع الصنائع" میں بیان کیا کہ مضمونات کی ملکیت ہمارے یہاں ضمان کے ذریعے حاصل ہو جاتی ہے، لیکن امام زفر اور امام شافعی کے مطابق ملکیت حاصل نہیں ہوتی۔ اس وجہ سے، ان کے نزدیک غاصب کا اس کی قربانی کرنا درست نہیں ہو گا۔
خلاصہ:
لہٰذا: قربانی عبادتوں میں سے ایک عبادت ہے، اور اللہ تعالیٰ پاک ہیں، وہ صرف پاکیزہ چیز کو قبول فرماتے ہیں۔ اس کے باوجود، اگر غصب شدہ بکری سے قربانی کی جائے تو وہ شرعًا درست اور صحیح ہوگی، بشرطیکہ اس کی قیمت مالک کو ادا کر دی جائے، جیسا کہ احناف، مالکیہ اور ان کے ہم خیال علماء کا موقف ہے۔
والله سبحانه وتعالى أعلم.