مریض کی عیادت کی فضیلت اور اس کے آد...

Egypt's Dar Al-Ifta

مریض کی عیادت کی فضیلت اور اس کے آداب کا بیان

Question

برائے کرم مریض کی عیادت کی فضیلت اور اس کے شرعی آداب بیان فرما دیں۔ کیونکہ میں نے دیکھا ہے کہ بعض لوگ مریضوں کی عیادت کے وقت طویل وقت تک بیٹھے رہتے ہیں، اور کبھی کبھار ایسے الفاظ بھی کہہ دیتے ہیں جو مریض یا اس کے ساتھ والوں کے لیے ذہنی تکلیف کا باعث بن سکتے ہیں۔

Answer

الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی سیدنا رسول اللہ وعلى آلہ وصحبہ ومن والاہ وبعد؛
مریض کی عیادت کی فضیلت:
چونکہ مریض کو بیماری کی وجہ سے تکلیف، پریشانی اور تنگی کا سامنا ہوتا ہے، اس لیے اسے دل جوئی، تسلی اور حوصلہ افزائی کی بہت ضرورت ہوتی ہے۔ اسلام نے اپنے پیروکاروں کو مریضوں کی عیادت کا حکم دیا ہے کیونکہ اس میں مریض کے لیے بہت بڑا فائدہ ہے۔ چنانچہ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ''بھوکے کو کھانا کھلاؤ، مریض کی عیادت کرو، اور قیدی کو آزاد کرو۔" صحیح بخاری۔

علماء کرام نے وضاحت فرمائی ہے کہ مریض کی عیادت کا حکم دینے کا اصل مقصد مریض کا حوصلہ بڑھانا اور اس کی تکلیف کو کم کرنا ہے۔ کیونکہ یہ بات کسی سے مخفی نہیں کہ مریض کے ساتھ اہل خانہ یا دیگر عیادت کرنے والوں کا بیٹھنا اس کے لیے تسلی و تشفی کا باعث ہوتا ہے، اور اس کی تکلیف و درد کو بھلانے میں مدد دیتا ہے۔ نیز یہ ملاقات اُسے اللہ تعالیٰ کی حمد و شکر کی یاد دلاتی ہے۔ یہ سب کچھ دراصل باہمی ہمدردی، بھائی چارے اور اُلفت و محبت کے اس جذبے کو فروغ دیتا ہے، جس کی خاطر اسلام نے ایک دوسرے کی عیادت کو مشروع (جائز ) قرار دیا ہے۔

امام مناوی رحمہ اللہ نے "فیض القدیر" میں حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ کی مذکورہ حدیث کی شرح کرتے ہوئے (جلد 4، صفحہ 443، مطبوعہ: المکتبۃ التجاریۃ الکبریٰ) "مطامح الأفهام" کے حوالہ سے نقل کیا ہے:
"یہ (عیادتِ مریض) ایک کلی مصلحت اور عمومی ہمدردی کا عمل ہے، جس کے بغیر دنیا و آخرت کا نظام قائم نہیں رہ سکتا۔"

جہاں تک مریض کی عیادت کی فضیلت کا تعلق ہے: تو اسلامی شریعت نے واضح فرمایا ہے کہ اس کا اجر بہت عظیم ہے اور اس کا فائدہ بہت وسیع۔ یہ جنت میں داخلے کے اسباب میں سے ایک سبب ہے، کیونکہ یہ اعمالِ صالحہ میں سے ایک نہایت عظیم اور بلند مقام عمل ہے۔ چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے کسی مریض کی عیادت کی یا کسی دینی بھائی سے ملاقات کی تو اس کو ایک آواز دینے والا آواز دیتا ہے: تمہاری دنیاوی و اخروی زندگی مبارک ہو، تمہارا چلنا مبارک ہو، تم نے جنت میں ایک گھر حاصل کر لیا۔"
(روایت: ترمذی — اور یہ الفاظ اسی کے ہیں — نیز ابن ماجہ نے بھی اسے اپنی سنن میں روایت کیا ہے)۔

حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: «إِنَّ الْمُسْلِمَ إِذَا عَادَ أَخَاهُ الْمُسْلِمَ لَمْ يَزَلْ فِي خُرْفَةِ الْجَنَّةِ حَتَّى يَرْجِعَ» ترجمہ:''جب کوئی مسلمان اپنے مسلمان بھائی کی عیادت کرتا ہے، تو وہ واپسی تک جنت کے پھل چننے میں لگا رہتا ہے۔" روایتِ صحیح مسلم۔

اور اس حدیثِ مبارکہ میں لفظ"الخُرْفَةُ" سے مراد وہ پھل ہے جو درخت، خاص طور پر کھجور، سے اس وقت توڑا جائے جب وہ مکمل طور پر پک چکا ہو۔ نبی کریم ﷺ نے یہاں اس بات کو مثال کے ذریعے سمجھایا ہے کہ جو شخص مریض کی عیادت کرتا ہے، وہ ایسے ہی جنت کے اجر و ثواب کو سمیٹ رہا ہوتا ہے جیسے کوئی شخص درخت سے تیار اور لذیذ پھل توڑ رہا ہو۔ یعنی مریض کی عیادت کرنے والا عظیم اجر اور بے شمار بھلائی حاصل کرتا ہے، کیونکہ یہ عبادت اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے افضل اور محبوب ترین کاموں میں سے ہے۔ اس لیے کہ اس سے مریض اور اس کے اہل خانہ کو خوشی، تسلی اور سکون ملتا ہے۔

علامہ ملا علی قاری رحمہ اللہ نے اپنی کتاب مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (جلد 8، صفحہ 3140، مطبوعہ: دار الفكر) میں حدیثِ نبوی «وتبوأت من الجنة منزلا» کی شرح میں فرمایا: ''(وتبوأت من الجنة منزلاً)" یعنی: تجھے اس عیادت کے ذریعے جنت میں ایک عظیم مقام اور بلند مرتبہ عطا کیا گیا۔ اس لیے کہ کسی مؤمن کے دل میں خوشی داخل کرنا جنّ و انس کی عبادت سے بھی افضل ہے، خاص طور پر جب کہ مریض کی عیادت فرضِ کفایہ ہے۔ اور اس میں نصیحت، عبرت، یاددہانی، صحت و زندگی کی قدر کی طرف توجہ دلانا اور غیر ضروری فکروں کو دور کرنا جیسے کئی فائدے بھی موجود ہیں۔

مریضوں کی عیادت کے دوران جن شرعی آداب کا خیال رکھنا ضروری ہے
جہاں تک مریضوں کی عیادت کے شرعی آداب کا تعلق ہے، تو اسلامی شریعت کے نصوص نے اس پہلو کو نہایت وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا ہے، جو اس بات کی دلیل ہے کہ شریعتِ مطہرہ نے مریض اور اس کی عیادت کو کتنی اہمیت دی ہے۔ یہ آداب اس بات کو ظاہر کرتے ہیں کہ اسلام نہایت باریکی اور حساسیت کے ساتھ معاملات کو دیکھتا ہے، یہاں تک کہ مریض کی زیارت جیسے عمل کی چھوٹی سے چھوٹی تفصیلات کا بھی خیال رکھتا ہے، تاکہ یہ زیارت محض ایک رسمی ملاقات نہ ہو، بلکہ اس سے حقیقی فائدہ حاصل ہو۔

اسی لیے اسلام نے مریض کی عیادت کے لیے ایک ایسا نظامِ آداب مرتب کیا ہے، جن پر عمل کرنے سے مریض کو تسلی و تشفی حاصل ہوتی ہے، اس کی تکلیف میں کمی آتی ہے، اور اس کے دل میں خوشی پیدا ہوتی ہے — تاکہ اس عبادت کا وہ دینی اور روحانی مقصد پورا ہو سکے جس کے لیے اسے مشروع کیا گیا ہے۔ مریض کی عیادت کے اہم ترین آداب میں سے بعض یہ ہیں:

ــ زائر یعنی عیادت کرنے والا مریض کے پاس بیٹھنے کے بعد ایسی گفتگو کرے جو اس کے دل کو تسلی دے، اس کی طبیعت کو ہلکا کرے اور اس میں زندگی کی امید جگائے۔ مثلاً کہے: ''اللہ آپ کی عمر دراز کرے، ان شاء اللہ کوئی مسئلہ نہیں، یہ بیماری گناہوں کا کفارہ ہے، اللہ آپ کو شفا دے گا" وغیرہ۔

زائر کو مریض کو یقین دلانا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ اسے اس مصیبت سے نجات دے گا اور اس کی عمر میں برکت عطا فرمائے گا — تاکہ مریض کا دل خوش ہو، اس کا حوصلہ بڑھے، اور اس کا دکھ ہلکا ہو۔

یہی نبی کریم ﷺ کی سنتِ مبارکہ ہے، جیسا کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ ایک دیہاتی مریض کی عیادت کے لیے تشریف لائے۔ آپ ﷺ جب کسی مریض کی عیادت کے لیے جاتے، تو فرماتے: ''کوئی حرج نہیں، یہ بیماری ان شاء اللہ پاکیزگی (گناہوں سے پاکی) کا ذریعہ ہے۔" روایتِ صحیح بخاری۔

قال امام ابن بطال نے "شرح صحیح بخاری" میں اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا (9/ 382، مکتبہ الرشد): [اس میں یہ ہے کہ سنت یہ ہے کہ بیمار کو اسے درد سے تسلی دینے والی باتیں کہی جائیں، اور اسے بیماریوں کے بدلے میں اجروثواب کی بشارت دی جائے، اور اس کے گناہوں کی معافی اور پاکیزگی کی یاد دلا کر اسے تسلی دی جائے۔ پھر اس کی امید کو بڑھایا جائے اور کہا جائے: جو تکلیف تم محسوس کرتے ہو اس میں کوئی بات نہیں، بلکہ اللہ تمہارے گناہوں کو اس کے ذریعے مٹا دے گا، اور پھر تمہارے لئے راحت کا سامان کرے گا، اس طرح تمہیں اجر اور صحت کا مجموعہ ملے گا] اهـ۔

ابو سعيد خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: « جب تم مریض کے پاس جاؤ تو اس کی عمر میں اضافہ کی دعا کرو ، یہ تقدیر تو نہیں بدلتا ہے لیکن مریض کا دل خوش کر دیتا ہے »۔ اسے امام ترمذی، امام ابن ماجہ نے اپنی "سنن" میں، ابن ابی شیبہ نے "مصنف" میں، طبرانی نے "الدعاء" میں، بیہقی نے "شعب الإيمان" میں، اور ابن السنی نے "عمل اليوم والليلة" میں روایت کیا ہے۔

امام ابن الملك کرمانی نے "شرح مصابیح السنہ" میں فرمایا (2/ 327، ط. ادارہ ثقافت اسلامیہ): [رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: «جب تم مریض کے پاس جاؤ تو اس کی عمر میں اضافہ کی دعا کرو»؛ یعنی اس کا مطلب ہے: اسے تسلی دو۔ یعنی اسے یہ کہا جائے: اللہ تمہاری عمر بڑھائے، کوئی بات نہیں، یہ تمہارے لیے طہارت ہے ان شاء اللہ، اور اللہ تمہیں شفا دے، اور اسی طرح کی دیگر باتیں۔ تمہارا تسلی دینا۔ اللہ کی تقدیر میں سے کچھ نہیں بدلے گا؛ یعنی موت کو نہیں ٹال سکتا، لیکن مریض کی روح کو سکون ملے گا اور اس کی پریشانیوں میں کمی آئے گی] اهـ۔

اور امام نووی نے اس حدیث پر "الأذکار" (ص: 139، ط. دار الفكر) میں باب قائم کیا: (باب استحباب تطیب نفس المريض)یعنی: باب: مریض کا دل خوش کرنے کے استحباب کے بیان میں ، اور امام ابن قیم جوزیہ نے "الطب النبوی" (ص: 87، ط. دار الهلال) میں فصل قائم کی: (فصل في هديه صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم في علاج المرضى بتطیب نفوسهم وتقوية قلوبهم) یعنی: فصل: مریضوں کے دل کو خوش رکھنے اور ان کے حوصلے بلند کرنے کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمودات کے بیان میں۔

ـ وہ اپنے الفاظ میں سب سے خوشگوار، نرم اور بہترین کلام کا انتخاب کرے؛ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿وَقُولُوا لِلنَّاسِ حُسْنًا﴾ ترجمہ: ''اور لوگوں سے اچھی بات کہو۔۔۔''[البقرة: 83]؛ یہ آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ شریعت لوگوں کو خوشگوار بات کرنے کی ترغیب دیتی ہے جو ہر قسم کی تکلیف سے پاک ہو اور نرم و خوشگوار کلام پر مشتمل ہو، چاہے انسان بیمار ہو یا تندرست۔ اور یہ بات بلا شک و شبہ مریض کے حق میں زیادہ مناسب اور اولی ہے۔

قال حافظ ابن كثير في "تفسيره" (1/ 317، ط. دار طيبة): [اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد: ﴿وَقُولُوا لِلنَّاسِ حُسْنًا﴾؛ یعنی: انہیں نرم اور خوشگوار کلام کہو، اور ان کے ساتھ نرمی برتو۔] اهـ۔

اس سے مراد یہ بھی ہے کہ مریض کی حالت کو دیکھ کر ناخوشی یا تکلیف ظاہر نہ کی جائے تاکہ اس سے مریض کو مزید اذیت نہ پہنچے؛ ورنہ یہ ملاقات اذیت اور نقصان کا سبب بن سکتی ہے،اور یہ حسن قول و فعل کے خلاف ہے جس کا شرعاً حکم دیا گیا ہے ۔

ــ  اس کے پاس بہت زیادہ نہ بیٹھا جائے تاکہ مریض کو تکلیف یا تنگی نہ ہو، یا اس سے اس کے اہلِ خانہ پر مشقت نہ پڑے، سوائے کسی ضرورت کے جیسے علاج وغیرہ کیلئے ہو؛ تو ایسی صورت میں کوئی حرج نہیں۔

حافظ ابن حجر عسقلانی نے "فتح الباری" (10/ 113، ط. دار المعرفة) میں مریض کی عیادت کے بارے میں فرمایا: [اور اس کی آداب میں سے یہ ہے کہ زیادہ دیر تک نہ بیٹھا جائے تاکہ مریض کو تکلیف نہ ہو یا اہلِ خانہ کو مشقت نہ ہو، لیکن اگر ضرورت ہو جیسے علاج وغیرہ تو پھر کوئی حرج نہیں] اهـ۔

ــ  مریض کے لئے شفاء کی دعا کرے؛ کیونکہ اس کے حق میں دعا قبول ہونے کے زیادہ امکانات ہوتے ہیں؛ جیسا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: «جو شخص کسی مریض کی عیادت کرے اور اس کا وقت موت نہ آیا ہو، اور اس کے پاس سات مرتبہ یہ کہے: (أَسْأَلُ اللَّهَ الْعَظِيمَ رَبَّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ أَنْ يَشْفِيَكَ،) میں اللہ سے جو عرش عظیم کا رب ہے، دعا کرتا ہوں کہ وہ تمہیں شفا دے، تو اللہ تعالیٰ اسے اس مرض سے شفا دے گا»۔ اس حدیث کو ابو داود، ترمذی نے اپنی "سنن" میں اور امام احمد نے "مسند" میں روایت کیا ہے۔

ــ زائر مریض کے لئے ایسا وقت منتخب کرے جو اس کے لئے مناسب ہو؛ تاکہ اس پر یا اس کے اہلِ خانہ پر بوجھ نہ پڑے۔ امام اشَّعْبی سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا: "احمق قاریوں کا عیادت کرنا اہلِ خانہ پر مریض کی بیماری سے بھی زیادہ گراں ہوتا ہے، وہ عیادت کے وقت میں نہیں بلکہ کسی اور آتے ہیں اور بیٹھنے کی خواہش کرتے ہیں"۔ اس حدیث کو امام بیہقی نے "شعب الإيمان" میں (11/ 434، ط. مکتبہ الرشد) اور ابن عبد البر نے "التمہید" میں (24/ 277، ط. وزارت الأوقاف والشؤون الإسلامية بالمغرب) ذکر کیا ہے۔

ــ  وہ مریض کی حالت یا اس کے گھر کی ایسی باتوں کو چھپائے جو مریض نہیں چاہتا کہ لوگوں کے درمیان پھیلیں؛ اس لیے زائر مریض کی عیادت کے لیے آئے، نہ کہ کسی دوسرے مقصد سے جیسے کہ خبروں کی چھان بین یا گھر کی پوشیدہ چیزوں کو دیکھنا، یا ایسی کسی اور چیز کے لیے جو معمولی سا بھی اذیت کا باعث بنے۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر پر چڑھے اور بلند آواز سے فرمایا: « رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف لائے، بلند آواز سے پکارا اور فرمایا: ”اے اسلام لانے والے زبانی لوگوں کی جماعت ان کے دلوں تک ایمان نہیں پہنچا ہے! مسلمانوں کو تکلیف مت دو، ان کو عار مت دلاؤ اور ان کے عیب نہ تلاش کرو، اس لیے کہ جو شخص اپنے مسلمان بھائی کے عیب ڈھونڈتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کا عیب ڈھونڈتا ہے، اور اللہ تعالیٰ جس کے عیب ڈھونڈتا ہے، اسے رسوا و ذلیل کر دیتا ہے، اگرچہ وہ اپنے گھر کے اندر ہو »۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے "سنن" میں اور امام ابن حبان نے "صحیح" میں روایت کیا ہے۔

ــ کہ وہ اپنی ملاقات کا اختتام ایسی باتوں سے کرے جو مریض کے دل پر مثبت اثر ڈالیں؛ تاکہ اس میں امید کا جذبہ پیدا ہو اور اسے یہ یقین دلایا جائے کہ اللہ تعالیٰ اسے تکلیف سے نجات دے گا اور اس کی عمر میں اضافہ کرے گا؛ تاکہ مریض کا دل خوش ہو اور اس کا حوصلہ بلند ہو۔

حاصلِ کلام یہ کہ اسلامی شریعت یہ چاہتی ہے کہ انسان مریض کی عیادت کے لیے ضرور جائے، اور اس بات کا خاص خیال رکھے کہ ہر وہ بات اور عمل کرے جو مریض کے لیے تسلی، راحت اور دلجوئی کا باعث بنے۔ اور ہر اس چیز سے بچنے کی کوشش کرے جو اس کو کسی بھی قسم کی اذیت پہنچا سکتی ہو؛ کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے یہ چاہتا ہے کہ وہ بہترین اخلاق کو اختیار کریں، اور سب سے عمدہ اور کامل اعمال بجا لائیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: «بیشک اللہ نے مجھے اعلی حسن اخلاق اور بہترین افعال کی تکمیل کے لیے بھیجا ہے»۔ اس حدیث کو طبرانی نے "الأوسط" اور "مكارم الأخلاق" میں، اور بیہقی نے "شعب الإيمان" میں، سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما سے مرفوعًا روایت کیا ہے۔

خلاصہ

اسی بنیاد پر اور سوال کی صورتِ حال کو مدنظر رکھتے ہوئے عرض ہے کہ مریض کی عیادت بہت بڑی فضیلت رکھتی ہے، اور یہی کافی ہے کہ یہ جنت میں داخلے کے اسباب میں سے ایک سبب ہے۔ عیادت کے دوران جن اہم آداب کا خیال رکھنا ضروری ہے، وہ ہیں: مریض کے دل میں امید اور خوشی پیدا کرنا، بہترین، نرم اور خوشگوار کلام کا انتخاب کرنا، اتنا دیر نہ بیٹھنا کہ مریض یا اس کے اہلِ خانہ کو تکلیف ہو، اس کے لیے شفاء کی دعا کرنا، ایسے وقت کا انتخاب کرنا جو مریض کے لیے مناسب ہو، مریض کی ایسی باتوں کو چھپانا جو وہ نہیں چاہتا کہ لوگوں میں پھیلیں، اور ملاقات کا اختتام ایسی باتوں سے کرنا جو اس کے دل پر اچھا اثر ڈالے؛ جیسے اسے یہ یقین دلانا کہ اللہ تعالیٰ اس کی تکلیف دور کر دے گا اور اس کی عمر میں اضافہ کرے گا، تاکہ اس کا دل سکون پائے اور اس کا حوصلہ بڑھے۔ ان آداب کا خلاصہ یہ ہے کہ عیادت کرنے والا ہر وہ عمل کرے جو مریض کو خوش کرے اور ہر اس چیز سے اجتناب کرے جو اسے تکلیف دے۔

والله سبحانه وتعالى أعلم.

 

Share this:

Related Fatwas