ایک شریک کی وفات کے بعد شراکت کا حک...

Egypt's Dar Al-Ifta

ایک شریک کی وفات کے بعد شراکت کا حکم

Question

اس شراکت کا کیا حکم ہے جب شراکت داروں میں سے ایک وفات پا جائے؟ میرے والد رحمہ اللہ اپنے ایک دوست کے ساتھ تجارتی مال میں شریک تھے، پھر میرے والد کا انتقال ہو گیا۔ تو اس تجارت کا کیا حکم ہوگا؟ یاد رہے کہ کہ ان پر کرایوں میں سے کچھ بقایاجات بھی ہیں، جو وہ اور ان کے شریک برداشت کرتے تھے، اور یہ بھی کہ کچھ مال ابھی گودام میں موجود ہے۔

Answer

الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی سیدنا رسول اللہ وعلى آلہ وصحبہ ومن والاہ وبعد؛

سوال میں مذکور شراکت کی نوعیت اور اس کا حکم

انسانوں کے درمیان شراکت ان عقود میں سے ہے جنہیں شریعتِ مطہرہ نے جائز قرار دیا ہے، تاکہ انہیں اپنے معاشی معاملات کو منظم کرنا آسان ہو اور وہ نیک کمائی کے حصول میں ایک دوسرے سے تعاون کر سکیں۔

یہ شراکت اصولی طور پر جائز ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے سے لے کر آج تک مسلمانوں کا اس کے جواز پر اجماع ہے، اور کسی نے اس پر نکیر نہیں کی۔

ابن مودود موصلی حنفی نے اپنی کتاب "الاختیار لتعلیل المختار" (جلد 3، ص 11-12، طبع الحلبی) میں شرکت کی مشروعیت کے بارے میں فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس حال میں مبعوث ہوئے کہ لوگ شراکت کے معاملات کر رہے تھے، پس آپ ﷺ نے ان پر کوئی نکیر نہیں فرمائی، اور لوگ آج تک اس پر عمل پیرا ہیں بغیر کسی انکار کے، تو یہ اجماع قرار پایا۔"

اور شراکت کی مختلف اقسام میں سے ایک قسم "شركة العِنَان" کہلاتی ہے، جیسا کہ ہمارے زیرِ بحث مسئلے میں ہے۔ فقہاء نے اس کی متعدد تعریفات بیان کی ہیں، جن خلاصہ یوں کیا جا سکتا ہے کہ:

"شركة العنان یہ ہے کہ دو افراد اپنے اپنے سرمائے کو باہم ملا کر شریک ہو جائیں، اس طرح کہ دونوں کے اموال ایک دوسرے سے ممتاز نہ رہیں، خواہ یہ اختلاط عقد کے وقت ہو یا خریداری کے وقت، پھر دونوں مل کر اس سرمایہ سے تجارت کریں، اس طور پر کہ کسی ایک کو دوسرے پر مکمل اختیار حاصل نہ ہو، اور حاصل ہونے والا نفع اور نقصان دونوں کے درمیان تقسیم ہو۔" "المبسوط" (شمس الأئمة السرخسي الحنفي، 11/152، مطبعہ دار المعرفة)، "القوانين الفقهية" (امام ابن جزی المالکی، ص: 474، مطبعہ دار ابن حزم)، "الحاوي الكبير" (امام الماوردي الشافعي، 6/473، مطبعہ دار الكتب العلمية)، اور "الإقناع" (امام شرف الدین ابی النجا الحجاوی الحنبلی، 2/252، مطبعہ دار المعرفة)۔

شراکتِ عنان فقہاء کے درمیان اجماع کے ساتھ جائز ہے، البتہ اس کی شرائط میں ان کے درمیان کچھ تفصیل پائی جاتی ہے۔

امام علاء الدین کاسانی نے "بدائع الصنائع" (6/58، مطبعہ دار الكتب العلمية) میں فرمایا: "جہاں تک شراکتِ عنان کا تعلق ہے، تو یہ تمام شہروں کے فقہاء کے نزدیک اجماعاً جائز ہے کیونکہ ہر دور میں لوگ اس کے مطابق معاملات کرتے آئے ہیں اور کسی نے اس پر نکیر نہیں کی۔"

شریعتِ اسلامی میں شرکت کے ضوابط

شریعتِ اسلامی نے شرکت کے لیے ایسے ضوابط مقرر کیے ہیں جو اس کی مشروعیت کی حکمت کو پورا کرتے ہیں اور اختلاف و نزاع سے بچاتے ہیں۔ ان میں سب سے اہم ضابطے یہ ہیں: امانت دار رہنا، خیانت سے اجتناب کرنا، اور دوسرے کے حق پر ناجائز قبضہ نہ کرنا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿وَإِنَّ كَثِيرًا مِنَ الْخُلَطَاءِ لَيَبْغِي بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَقَلِيلٌ مَا هُمْ﴾ ترجمہ: اور یقیناً اکثر شریک ایک دوسرے پر زیادتی کرتے ہیں، سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کیے، اور ایسے لوگ بہت کم ہیں" [ص: 24]۔ یہاں "الخلطاء" سے مراد شریک ہیں۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "بے شک اللہ فرماتا ہے: میں دو شریکوں کے درمیان تیسرا ہوتا ہوں جب تک کہ ان میں سے کوئی ایک اپنے ساتھی کے ساتھ خیانت نہ کرے، پس جب وہ خیانت کرتا ہے تو میں ان کے درمیان سے نکل جاتا ہوں۔" اس حدیث کو امام ابو داؤد (انہیں کے الفاظ ہیں)، دارقطنی، بیہقی اور حاکم نے روایت کیا ہے۔

کیا کسی شریک کی وفات سے شرکت کا معاہدہ فسخ ہو جاتا ہے؟

فقہاء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ کسی ایک شریک کی وفات، عقدِ شرکت کے فسخ کے اسباب میں سے ایک ہے، کیونکہ شرکت ان جائز عقود میں سے ہے، جن میں ملکیت اور تصرف کی اہلیت کا پایا جانا ضروری ہوتا ہے۔ جبکہ موت ان دونوں کے بطلان کا سبب بنتی ہے، جس کی وجہ سے عقدِ شرکت بھی باطل ہو جاتا ہے، کیونکہ اس کی صحت کا دار و مدار انہی امور پر ہے۔ مزید برآں، شرکت کا دار و مدار وکالت پر بھی ہوتا ہے، کیونکہ شرکت کا ہر فریق اپنے شریک کا وکیل بھی ہوتا ہے اور اس کا موکل بھی ہوتا ہے ، اور وکالت بھی فریقین میں کسی ایک کی وفات کے ساتھ باطل ہو جاتی ہے۔ " "بدائع الصنائع" امام کاسانی (6/78)، "التهذيب في اختصار المدونة" ابو سعید ابن البراذعی (3/572، ط: دار البحوث للدراسات الإسلامية وإحياء التراث، دبئی)، "الإقناع" خطیب شربینی شافعی (2/319، ط: دار الفكر)، اور "شرح منتهى الإرادات" علامہ منصور البُہوتی حنبلی (2/191، ط: عالم الكتب)۔

شریک کی وفات کے بعد نئے سرے سے عقدِ شرکت کا حکم

اگرچہ اشخاصِ شرکت میں کسی ایک شریک کی وفات شرکت کے اختتام کا سبب بنتی ہے، لیکن یہ اس بات میں رکاوٹ نہیں کہ زندہ شریک اور متوفی کے ورثاء نئے سرے سے شرکت کا عقد کر لیں۔ یہ اس صورت میں جب ورثاء شرکت کو برقرار رکھنے کا فیصلہ کریں، جیسا کہ فقہاءِ شافعیہ اور حنابلہ نے قرار دیا ہے کہ عاقل و بالغ وارث کو یہ اختیار حاصل ہوتا ہے کہ وہ یا تو ترکہ کی تقسیم کرے یا شرکت کو جاری رکھے۔ اور اگر وارث ناسمجھ (غیر رشید) ہو، تو اس کا ولی ان دونوں میں سے وہی صورت اختیار کرے گا جو وارث کے لیے زیادہ مفید ہو، بشرطیکہ متوفی پر کوئی قرض یا وصیت باقی نہ ہو۔

امام خطیب شربینی رحمہ اللہ "مغني المحتاج" (3/228، دار الكتب العلمية) میں فرماتے ہیں: (اور شرکت ایک شریک کی موت، اس کے مجنون ہونے یا بے ہوش ہونے سے ختم ہو جاتی ہے)... لیکن اگر وارث غیر رشید ہو، تو اس کے ولی پر لازم ہے کہ وہ نئے سرے سے شرکت جاری رکھے، اگر اس میں فائدہ ہو، حتیٰ کہ خواہ صرف اقرار کے الفاظ سے ہی کیوں نہ ہو۔ لیکن اگر اس میں فائدہ نہ ہو تو اسے تقسیم کرنا لازم ہوگا۔ اور اگر وارث رشید ہو، تو اسے اختیار ہوگا کہ وہ ترکہ کی تقسیم کرے یا شرکت کو جاری رکھے، بشرطیکہ متوفی پر کوئی قرض یا وصیت نہ ہو۔"

علامہ منصور البہوتی حنبلی رحمہ اللہ "کشاف القناع" (3/506، عالم الكتب) میں فرماتے ہیں: اور اگر شرکاء میں سے کوئی ایک فوت ہو جائے اور اس کا کوئی عاقل و بالغ وارث ہو، تو اس وارث کو اختیار حاصل ہوگا کہ وہ شرکت کو برقرار رکھے، بشرطیکہ دوسرا شریک اسے تصرف کی اجازت دے، اور وہ بھی اپنے شریک کو تصرف کی اجازت دے۔"

لہٰذا، اگرچہ کسی شریک کی موت، شرکت کے خاتمے کا سبب بنتی ہے، لیکن ورثاء کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ دوسرے شریک کے ساتھ اتفاق کرکے نئے سرے سے شرکت کو جاری رکھ سکیں۔

متوفی شریک کے ذمہ باقی ماندہ کرایوں کا تصفیہ

جہاں تک مرحوم شریک کے ذمے بقایاجات، جیسے کرایوں کی عدم ادائیگی اور گودام میں موجود مال میں اس کے حصے کا تعلق ہے: اگر ورثاء شرکت کے معاہدے کو جاری نہ رکھنا چاہیں، تو اس صورت میں دونوں شریکوں کے درمیان شرکت ختم ہو جائے گی، جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا۔ اور پھر متوفی شریک کا حصہ اس کے ورثاء کو منتقل ہو جاۓ گا، مگر اس سے پہلے تمام مالی معاملات کو صاف کرنا ضروری ہوگا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ متوفی شریک کے ذمے جو بھی واجب الادا قرضے یا کرائے ہوں، انہیں پہلے ادا کیا جائے گا۔ پھر شرکت کے کل مال میں سے، جو دونوں شریکوں کے درمیان مشترک تھا، متوفی کا حصہ نکالا جائے گا۔ اور متوفی شریک کا حصہ اس کے شرعی ورثاء کے حوالے کر دیا جائے گا۔

یہ عمل "مُصفّی" (Liquidator) کی تقرری کے ذریعے انجام دیا جائے گا، جو تصفیہ کے تمام مراحل مکمل کرے گا۔ تصفیہ (Liquidation) ایک ایسا قانونی عمل ہے جو شرکت کے خاتمے کے بعد کیا جاتا ہے، اس عمل کے دوران، وہ شرکت کے اثاثوں اور جائیدادوں کا حساب لگاۓ گا، تاکہ ہر شریک کے حقوق اور واجب الادا قرضوں کا تعین کیا جا سکے۔ پھر، تصفیے کے بعد شرکت کی رقم کو شرکاء میں ان کے حصے کے مطابق تقسیم کیا جاۓ گا ۔ مرحوم شریک کے ذمے جو قرض ہوں، انہیں نکالنے کے بعد جو بھی باقی بچے، وہ ورثاء کا شرعی ترکہ ہوگا، جسے ان کے حوالے کر دیا جائے گا۔

امام مالک رحمہ اللہ  "المدونة" میں فرماتے ہیں: اگر ایک شریک وفات پا جائے تو دوسرے شریک کو باقی ماندہ مال یا سامان میں کسی بھی قسم کا تصرف کرنے کا حق نہیں، خواہ وہ تھوڑا ہو یا زیادہ، جب تک ورثاء کی رضامندی حاصل نہ ہو، کیونکہ شریک کی وفات کے ساتھ ہی شرکت ختم ہو جاتی ہے اور متوفی کا حصہ اس کے ورثاء کا ہو جاتا ہے۔

لیکن اگر ورثاء اس کمپنی میں شراکت کو جاری رکھنا چاہیں تو دو صورتیں ممکن ہیں: یا تو وہ تاخیر شدہ واجبات کو اپنی وراثتی حصے سے منہا کر لیں، اور باقی ماندہ حصہ ان کی کمپنی میں شراکت تصور ہوگا، یا پھر وہ اپنے والد مرحوم کی تاخیر شدہ واجبات کو خود ادا کریں؛ کیونکہ فقہاء کے اصول کے مطابق، نفع نقصان کے ساتھ اور نقصان نفع کے ساتھ جڑا ہوتا ہے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیں: ملاحظہ ہو: تبیین الحقائق از امام زیلعی (جلد 5، صفحہ 89، مطبعہ کبریٰ)، اور الوسیط فی المذہب از امام غزالی (جلد 3، صفحہ 193، دار السلام)۔

خلاصہ

مذکورہ بالا تفصیل کی بنیاد پر اور سوال کے مطابق: اگر شریک میں سے کوئی ایک فوت ہو جائے تو یہ شرکت کے ختم ہونے کے اسباب میں سے ایک سبب ہے، لیکن اگر دونوں فریقین کے درمیان اتفاق اور رضا مندی ہو تو اس کے جاری رہنے میں کوئی ممانعت نہیں۔ مرحوم والد کے ذمے جو کرائے کی بقایا رقم ہے، وہ ان کے حصے سے منہا کی جائے گی، اور جو کچھ باقی بچے گا، وہ ان کے شرعی ورثاء کو بطورِ میراث دی جائے گی ۔ اگر ورثاء شرکت جاری رکھنا چاہیں تو یا تو وہ بقایا رقم ادا کریں گے، یا وہ ان کے حصے سے منہا کر لی جائے گی، اور باقی ماندہ حصہ ان کی شرکت میں شمار ہوگا۔

والله سبحانه وتعالى أعلم.

Share this:

Related Fatwas