قرآن کریم میں حضرت جبرائیل علیہ السلام کو "روح القدس" کہنے کی وجہ
Question
حضرت جبرائیل علیہ السلام کو "روح القدس" کیوں کہا گیا ہے؟ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں ہے:
﴿قُلۡ نَزَّلَهُۥ رُوحُ ٱلۡقُدُسِ مِن رَّبِّكَ بِٱلۡحَقِّ لِيُثَبِّتَ ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ وَهُدٗى وَبُشۡرَىٰ لِلۡمُسۡلِمِينَ﴾ ترجمہ: "کہہ دیجئے! کہ اسے تیرے رب کی طرف سے روح القدس نے سچائی کے ساتھ اتارا ہے تاکہ ایمان والوں کے دل جما دے اور فرمانبرداروں کے لیے ہدایت اور خوشخبری ہے۔ [النحل: 102]
Answer
الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی سیدنا رسول اللہ وعلى آلہ وصحبہ ومن والاہ وبعد؛ حضرت جبرائیل علیہ السلام کو "روح القدس" کہنے کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اُنہیں اپنی خاص تخلیق سے، بغیر کسی باپ کے ذریعہ ولادت کے، محض اپنی طرف سے ایک روح کے طور پر پیدا فرمایا۔ اسی سبب سے حضرت عیسیٰ ابن مریم علیہما السلام کو بھی "روح" کہا گیا ہے۔ یہ حضرت جبرائیل علیہ السلام کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک اعزاز اور تکریم ہے، اور ان کے بلند رُتبے کی علامت بھی۔ مزید یہ کہ اُنہیں یہ لقب اس لیے بھی دیا گیا کہ اللہ تعالیٰ ان کے ذریعے دین کو زندہ فرماتا ہے، جیسے روح کے ذریعے جسم کو زندگی عطا کی جاتی ہے۔
امام طبری رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر "جامع البيان" (2/322) میں فرمایا: ''اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرائیل کو 'روح' اس لیے کہا اور 'القدس' کی طرف اس کی نسبت کی، کیونکہ اللہ نے انہیں بغیر کسی باپ کے ذریعہ ولادت کے ، محض اپنی قدرت سے ایک روح کے طور پر پیدا فرمایا۔ اس بنا پر انہیں 'روح' کہا گیا، اور 'القدس' کی طرف اضافت کی گئی، اور 'القدس' کا مطلب ہے پاکیزگی۔ اسی طرح حضرت عیسیٰ ابن مریم کو بھی 'روح' کہا گیا، کیونکہ اللہ نے انہیں بھی بغیر باپ کے اپنی قدرت سے پیدا فرمایا۔"
اور امام رازی رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر "مفاتیح الغيب" (3/596، طبع دار إحياء التراث العربي) میں فرمایا: ''انہیں (جبرائیل علیہ السلام کو) یہ لقب درج ذیل وجوہات کی بنیاد پر دیا گیا:
پہلی وجہ:
"روح القدس" سے مراد ہے: "روحِ مقدّس"، جیسے کہ کسی سخی انسان کو "حاتم الجود" اور کسی سچے شخص کو "رجل صدق" کہا جاتا ہے۔ اس طرح حضرت جبرائیل علیہ السلام کو یہ لقب دینا ان کی تعظیم و تکریم اور اللہ تعالیٰ کے ہاں ان کے بلند مرتبے کو ظاہر کرتا ہے۔
دوسری وجہ:
انہیں "روح" اس لیے کہا گیا کہ جیسے جسم روح سے زندہ ہوتا ہے، ویسے ہی دین حضرت جبرائیل کے ذریعے زندہ ہوتا ہے؛ کیونکہ آپ علیہ السلام ہی انبیاء علیہم السلام پر وحی لے کر نازل ہوتے ہیں، اور مکلف لوگ جب اس وحی پر عمل کرتے ہیں تو دین کو زندگی ملتی ہے۔
تیسری وجہ:
حضرت جبرائیل علیہ السلام پر روحانیت کا غلبہ ہے، اگرچہ تمام فرشتے روحانی مخلوق ہیں، لیکن حضرت جبرائیل کی روحانیت سب سے زیادہ کامل و اعلیٰ ہے۔
چوتھی وجہ:
حضرت جبرائیل علیہ السلام کو "روح" اس لیے کہا گیا کیونکہ نہ تو اُنہیں کسی مرد کے صلب نے اٹھایا اور نہ ہی کسی عورت کے رحم نے جنم دیا۔
اور علامہ واحدی رحمہ اللہ نے "التفسير الوسيط" (3/130) میں فرمایا: حضرت جبرائیل علیہ السلام کو "روح" اس لیے کہا گیا کہ آپ ان جسموں کے لیے روح کی طرح ہیں، جو اللہ عز و جل کی طرف سے آنے والی ہدایت سے زندہ ہو جاتے ہیں، جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:﴿أَوَ مَن كَانَ مَيۡتًا فَأَحۡيَيۡنَٰهُ﴾ یعنی: "کیا وہ شخص جو مردہ تھا، پھر ہم نے اسے زندہ کیا؟" — اس سے مراد یہ ہے کہ وہ کافر تھا، پھر ہم نے اُسے ہدایت دی۔
والله سبحانه وتعالى أعلم.