آیتِ کریمہ ﴿لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا ا...

Egypt's Dar Al-Ifta

آیتِ کریمہ ﴿لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا الْحُسْنَى وَزِيَادَةٌ﴾ میں "زیادۃ" کا مفہوم

Question


اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا الْحُسْنَى وَزِيَادَةٌ﴾ [یونس: 26] میں "زیادۃ" سے کیا مراد ہے؟

Answer

الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی سیدنا رسول اللہ وعلى آلہ وصحبہ ومن والاہ وبعد؛
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا الْحُسْنَى وَزِيَادَةٌ﴾ [یونس: 26]
پس "الحسنى" سے مراد جنت ہے، اور "الزيادة" سے مراد اللہ تعالیٰ کے چہرۂ مبارک کا دیدار ہے، جیسا کہ جمہور مفسرین نے بیان فرمایا ہے۔ امام ابو بکر عبدالرزاق نے اپنی تفسیر (2/174، طبع دار الکتب العلمیۃ) میں فرمایا: [قتادہ سے روایت ہے کہ: ﴿الحسنى﴾ سے مراد جنت ہے، اور ﴿الزيادة﴾ سے مراد اللہ کے چہرۂ مبارک کا دیدار ہے ـ جیسا کہ ہم تک پہنچا ہے ـ] ۔

امام فخرالدین رازی رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر "مفاتیح الغیب" (13/103، طبع دار إحیاء التراث العربی) میں، ان دلائل کے ضمن میں کہ مؤمنین اللہ تعالیٰ کو دیکھیں گے، فرمایا: جمہور کا اس پر اتفاق ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آیتِ کریمہ ﴿لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا الْحُسْنَى وَزِيَادَةٌ﴾ [یونس: 26] کی تلاوت فرمائی، پھر فرمایا: ’’الحسنى‘‘ جنت ہے اور ’’الزيادة‘‘ اللہ تعالیٰ کے چہرۂ مبارک کا دیدار ہے۔

مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: تفسیر الألوسی (11/102، طبع دار إحیاء التراث العربی)۔

اس تفسیر کی تائید اُس حدیثِ مبارکہ سے بھی ہوتی ہے جو حضرت صہیب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "جب اہلِ جنت جنت میں داخل ہو جائیں گے، تو اللہ تبارک وتعالیٰ فرمائے گا: کیا تم چاہتے ہو کہ میں تمہیں کچھ اور عطا کروں؟ وہ عرض کریں گے: کیا تُو نے ہمارے چہرے روشن نہیں کیے؟ کیا تُو نے ہمیں جنت میں داخل نہیں فرمایا، اور ہمیں جہنم سے نجات نہیں دی؟"
آپ ﷺ نے فرمایا: "پھر اللہ تعالیٰ پردہ ہٹا دے گا، اور اُنہیں جو سب سے زیادہ محبوب چیز عطا کی جائے گی، وہ اپنے رب عزوجل کے دیدار کا شرف ہو گا۔" صحیح مسلم۔

اہلِ سنّت والجماعت کا اس پر اجماع ہے کہ اللہ تعالیٰ کا دیدار  ممکنات میں سے ہے، اور عقل اس بات کو محال نہیں سمجھتی کہ بندے آخرت میں اپنے رب کا دیدار کریں۔

آخرت میں اللہ تعالیٰ کے دیدار کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے مؤمن بندوں پر مکمل طور پر جلوہ فرما ہوگا، اور وہ اُسے واضح طور پر دیکھیں گے۔ اس رؤیت سے کسی خاص سمت (جهت) کا اثبات لازم نہیں آتا—اللہ تعالیٰ اس سے پاک بہت بلند وبالا ہے—مؤمنین اللہ تعالیٰ کو دیکھیں گے، بغیر کسی سمت کے، جیسے وہ یہ جانتے ہیں کہ اللہ کسی جہت میں محدود نہیں ہے۔

ڈاکٹر محمد سعید رمضان البوطی رحمہ اللہ "کبریٰ الیقینیات الكونية" (ص: 171، طبع دار الفكر المعاصر) میں فرماتے ہیں: اگرچہ اللہ تعالیٰ نہ جسم ہے اور نہ ہی کسی جمہت میں محدود ہے، پھر بھی ممکن ہے کہ وہ اپنے بندوں پر اس طرح جلوہ فرما ہو جیسے چودھویں رات کا چاند روشن ہوتا ہے، جیسا کہ صحیح احادیث میں وارد ہوا ہے، اور وہ اللہ کی ذات کو ایسے حقیقی طور پر دیکھیں گے کہ کسی قسم کا شک نہ ہوگا، اور یہ دیدار اِن شاء اللہ اُن شرائط کے بغیر واقع ہوگا جن کی دنیا میں رؤیت کے لیے ضرورت ہوتی ہے۔"

اور اس تفسیر کی تائید ان احادیث سے بھی ہوتی ہے: جرير بن عبد الله رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ بیٹھے تھے، آپ نے چودھویں رات کے چاند کی طرف دیکھا اور فرمایا:

"تم اپنے رب کو اسی طرح دیکھو گے جیسے اس چاند کو دیکھ رہے ہو، تمہیں اس کے دیکھنے میں کوئی دقت یا جھجک نہ ہوگی۔ پس اگر تم اس بات کی طاقت رکھتے ہو کہ سورج کے طلوع ہونے سے پہلے اور غروب ہونے سے پہلے کی نماز (یعنی فجر اور عصر) ترک نہ کرو، تو ضرور ایسا کرو۔" پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی: ﴿وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ الْغُرُوبِ﴾ ترجمہ: اور اپنے رب کی پاکیزگی بیان کر تعریف کے ساتھ، دن نکلنے سے پہلے اور دن چھپنے سے پہلے۔ [ق: 39] متفق علیہ۔

اور انہی سے ایک اور روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
"تم اپنے رب کو بالکل واضح طور پر دیکھو گے"
اسے امام بخاری نے اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔ ان تمام دلائل کی روشنی میں سوال کے جواب کی وضاحت ہو گئی۔

والله سبحانه وتعالى أعلم.

Share this:

Related Fatwas