اول وقت میں اکیلے نماز ادا کرنا افضل ہے یا آخر وقت میں جماعت کے ساتھ
Question
کون سا عمل افضل ہے: اول وقت میں اکیلے نماز ادا کرنا یا آخر وقت میں جماعت کے ساتھ پڑھنا؟ کچھ لوگ آبادی سے دور کھیتوں میں کام کرتے ہیں، اور ان میں سے ایک شخص پوچھ رہا ہے: جب نماز کا وقت داخل ہوتا ہے اور میں چاہتا ہوں کہ اول وقت میں جماعت کے ساتھ نماز ادا کروں، تو میرے ساتھی مجھ سے کہتے ہیں کہ کچھ دیر انتظار کرو تاکہ وہ اپنے کام سے فارغ ہو جائیں اور ہم سب مل کر جماعت کے ساتھ نماز ادا کریں گے۔ تو میرے لیے ان دونوں میں سے کون سا عمل زیادہ ثواب کا باعث اور اللہ عز وجل کے حکم نماز قائم کرنے اور اس کی حفاظت کے زیادہ قریب ہے: اول وقت میں اکیلے نماز پڑھنا یا جماعت کا انتظار کرنا چاہے اول وقت گزر جاۓ؟
Answer
الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی سیدنا رسول اللہ وعلى آلہ وصحبہ ومن والاہ وبعد؛
نماز کے وقت کو کشادہ رکھنے میں اسلامی شریعت کی وسعت اور نرمی کا بیان
نماز اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں سے دوسرا رکن ہے، جو شہادتین (شہادتِ توحید ورسالت) کے بعد سب سے اہم فریضہ ہے۔ قیامت کے دن بندے سے سب سے پہلے نماز کا حساب لیا جائے گا، اگر نماز درست ہوگی تو باقی اعمال بھی درست سمجھے جائیں گے، اور اگر نماز خراب ہوگی تو دیگر اعمال بھی ناقص شمار کیے جائیں گے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے سیدنا رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: ''قیامت کے دن بندے کے اعمال میں سب سے پہلے اس کی نماز کا حساب لیا جائے گا، اگر وہ درست ہوئی تو وہ کامیاب و کامران ہوگا، اور اگر وہ خراب ہوئی تو وہ نامراد اور خسارے میں ہوگا۔"
اس حدیث کو امام ترمذی (انہیں کے الفاظ یہ ہیں)، امام نسائی اور امام بیہقی نے روایت کیا ہے۔
اللہ تعالیٰ کی نعمتوں اور بندوں پر تخفیف میں سے یہ بھی ہے کہ اس نے نماز کے لیے ایک وقت مقرر فرمایا، اس کا آغاز اور اختتام متعین کر دیا ہے، اور ان دونوں کے درمیان ادائیگی کی گنجائش رکھی ہے، اسے کسی ایک مخصوص لمحے تک محدود نہیں کیا۔ جیسا کہ امام ابوبکر جصاص رحمہ اللہ نے "شرح مختصر الإمام الطحاوي" (1/519، ط. دار البشائر) میں ذکر کیا ہے۔
اور یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ اللہ عز وجل بندوں سے حرج کو دور کر دے اور ان کے لیے نماز کو اس کے مقررہ اوقات میں ادا کرنا آسان بنا دے۔ چنانچہ جس شخص نے اللہ عز وجل کے اس فرمان ﴿حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ﴾ [یعنی (نمازوں کی حافاظت کرو) البقرة: 238] پر عمل کرتے ہوئے نماز کی پابندی کی اور اس سے غافل نہ ہوا، تو یہ نماز اس کے دین اور جان کی حفاظت کرے گی اور اسے گناہوں اور معصیت سے روکے گی۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ﴾ [العنكبوت: 45]، یعنی: بے شک نماز بے حیائی اور برے کاموں سے روکتی ہے۔ (تأويلات أهل السُّنة، امام ابو منصور الماتُریدی، 2/ 209، دار الكتب العلمية)۔
نماز کو اول وقت میں ادا کرنے کی فضیلت
شریعتِ مطہرہ نے عمومی طور پر عبادات اور نیکی کے کاموں میں جلدی اور سبقت کرنے کی ترغیب دی ہے، جن میں نماز کو اول وقت میں ادا کرنا بھی شامل ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ﴾ پس نیکیوں کی طرف سبقت کرو۔)البقرة: 148( اور فرمایا: ﴿وَسَارِعُوا إِلَى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ أُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِينَ﴾ یعنی: اور اپنے رب کی بخشش اور اس جنت کی طرف دوڑو جس کی چوڑائی آسمانوں اور زمین کے برابر ہے، جو متقین کے لیے تیار کی گئی ہے''۔آل عمران: 133
امام فخر الدین رازی رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر "مفاتيح الغيب" (4/115) میں ان آیات کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا: یعنی مغفرت کا باعث بننے والے اعمال میں جلدی کرو، اور اس میں کوئی شک نہیں کہ نماز بھی ان میں شامل ہے، پس اس میں جلدی کرنا مطلوب ہے۔
اور یہ معلوم حقیقت ہے کہ جو شخص اپنے رب کی اطاعت میں جلدی کرتا ہے، وہ اس شخص سے افضل ہوتا ہے جو اس میں تاخیر اور سستی کرتا ہے، جیسا کہ امام ابن رشد الجدؒ نے "المقدمات" (1/150، ط. دار الغرب الإسلامي) میں فرمایا۔
چونکہ نماز اہم ترین عبادات میں سے ایک ہے اور اس کا درجہ سب سے بلند ہے، اس لیے اس کی طرف جلدی کرنا اسے کامل ترین اوصاف کے ساتھ ادا کرنے سے حاصل ہوتا ہے۔ ان اوصاف میں سے ایک یہ ہے کہ نماز کو اس کے اول وقت میں جماعت کے ساتھ ادا کیا جائے۔
اول وقت میں نماز کی فضیلت نبی کریم ﷺ کے اس بارے میں ترغیب دینے سے بھی واضح ہوتی ہے۔ پس حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے سیدنا رسول اللہ ﷺ سے پوچھا: أَيُّ الْأَعْمَالِ أَحَبُّ إِلَى اللهِ؟ قَالَ: «الصَّلَاةُ عَلَى وَقْتِهَا» یعنی: اللہ کو کون سا عمل سب سے زیادہ محبوب ہے؟" تو آپ ﷺ نے فرمایا: "نماز کو اس کے وقت پر ادا کرنا۔" متفق علیہ
اور ایک روایت میں حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: "نماز کو اس کے اول وقت میں ادا کرنا۔" اسے امام ابن خزیمہ، ابن حبان اور حاکم نے روایت کیا ہے، اور حاکم نے فرمایا کہ یہ حدیث صحیح ہے اور بخاری و مسلم کی شرط پر ہے۔
یہی الفاظ حضرت اُمِّ فروہ رضی اللہ عنہا سے بھی مروی ہیں، جنہیں امام ابو داود اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔ ایک اور روایت میں ان سے یہ الفاظ بھی مروی ہیں: "نماز کو اس کے اول وقت میں ادا کرنا۔" اسے امام احمد، ترمذی اور حاکم نے روایت کیا ہے۔
یہ تمام الفاظ ایک دوسرے کے قریب المعنی اور ہم مفہوم ہیں، جن سے یہ واضح ہوتا ہے کہ نماز کو اول وقت میں ادا کرنا اللہ عز و جل کے نزدیک محبوب ترین اور افضل ترین اعمال میں سے ہے، اور سب سے زیادہ ثواب اور قرب الٰہی کا باعث ہے۔ جیسا کہ امام حافظ زین الدین ابن رجب رحمہ اللہ نے "فتح الباری" (4/ 207-209، ط. دار الحرمین)، ملا علی قاری رحمہ اللہ نے "مرقاة المفاتيح" (2/ 310، ط. دار الفكر) میں ذکر کیا ہے۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ"أَحَبُّ"( سب سے زیادہ محبوب) کا لفظ استحباب میں شراکت کو مستلزم ہے، جس کے ذریعے آخری وقت سے احتراز کیا جاتا ہے۔جیسا کہ امام سراج الدین ابن الملقن رحمہ اللہ نے "التوضيح لشرح الجامع الصحيح" (6/ 130، ط. دار النوادر) میں فرمایا ہے۔
نماز کو اول وقت میں ادا کرنا اللہ کی رضا کا سبب ہے، درمیان میں ادا کرنا اس کی رحمت کا ذریعہ ہے، اور آخر وقت میں ادا کرنا اس کے عفو و درگزر کا موجب ہے۔ پس حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: «الْوَقْتُ الْأَوَّلُ مِنَ الصَّلَاةِ رِضْوَانُ اللهِ، وَالْوَقْتُ الْآخِرُ عَفْوُ اللهِ»یعنی:" نماز اول وقت میں اللہ کی رضا مندی کا موجب ہے اور آخری وقت میں اللہ کی معافی کا موجب ہے۔'' اس حدیث کو امام ترمذی اور امام دارقطنی رحمہما اللہ نے روایت کیا ہے۔
امام شرف الدین الطِّیبِي رحمہ اللہ "شرح مشكاة المصابيح" (3/ 890، ط. مكتبة نزار الباز) میں فرماتے ہیں:اس حدیث میں "مِنَ الصَّلَاةِ" کا لفظ وقت کی وضاحت کے لیے ہے، اور "رِضْوَانُ اللهِ" خبر ہے، جس کی توجیہ دو طرح سے ہو سکتی ہے:
یا تو یہاں مضاف کو محذوف مانا جاۓ گا یعنی مفہوم یہ ہوگا کہ نماز کا اول وقت اللہ کی رضا کا سبب ہے۔ یا پھر یہ مبالغے پر مبنی تعبیر ہے یعنی نماز کا اول وقت بذاتِ خود اللہ کی رضا ہے (یعنی اول وقت سراپا رضا رضاۓ الٰہی ہے)، جیسے یہ کہا جائے "رجلٌ صَوْم" (یعنی یہ شخص سراپا روزہ ہے) یا "رجلٌ عَدْل" (یعنی یہ شخص سراپا عدل ہے)، یہ مبالغے کے اسلوب میں آتا ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ سے منقول ہے، جس میں وہ فرماتے ہیں کہ اللہ کی رضا (رضوان) نیکوکاروں کے لیے ہوتی ہے، جبکہ عفو (معافی) کا تعلق تقصیر (کوتاہی) کرنے والوں سے ہوتا ہے۔
حضرت سیدنا امیر المؤمنین ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب انہوں نے یہ حدیث سنی تو فرمایا: ''رِضْوَانُ اللهِ أَحَبُّ إلَيْنَا مِنْ عَفْوِهِ" یعنی "اللہ کی رضا ہمیں اس کی معافی سے زیادہ محبوب ہے"۔ اس قول کو امام حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب "التلخيص الحبير" (1/460، ط. دار الكتب العلمية) میں ذکر کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ کی رضا سب سے بڑا انعام ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا: ﴿وَرِضْوَانٌ مِنَ اللَّهِ أَكْبَرُ ذَلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ﴾ یعنی: ''اور اللہ کی رضا سب سے بڑی چیز ہے، یہی سب سے بڑی کامیابی ہے۔''[التوبة: 72]۔
جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنے کی فضیلت
جہاں تک جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کی فضیلت کا تعلق ہے، تو اس کی وضاحت نبی اکرم ﷺ کے اس فرمان میں موجود ہے:صَلَاةُ الْجَمَاعَةِ تَفْضُلُ صَلَاةَ الْفَذِّ بِسَبْعٍ وَعِشْرِينَ دَرَجَةً۔ یعنی: جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا، اکیلے نماز پڑھنے سے ستائیس درجے زیادہ افضل ہے۔یہ حدیث حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے اور متفق علیہ ہے۔اسی طرح ایک اور روایت میں آیا ہے: پچیس درجے زیادہ افضل ہے۔یہ روایت امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے نقل کی ہے۔
امام ابوالحسن بن بطال رحمہ اللہ نے "شرح صحیح البخاری" (2/ 272، مکتبہ الرشد) میں فرمایا: ''نبی کریم ﷺ کا یہ فرمان ( جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے پر ستائیس درجے، پچیس گنا، اور پچیس حصے زیادہ ثواب ملتا ہے) اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنے والے کا اجر، اکیلے نمازی کے اجر سے ان درجوں اور اوصاف کے مطابق بڑھا دیا جاتا ہے۔
اور وہ جماعت جس کے ذریعے یہ فضیلت اور عظیم اجر حاصل ہوتا ہے، اس سے مراد ہر وہ نماز ہے جس میں -سوائے جمعہ اور عیدین کی نمازوں کے- امام کے ساتھ کم از کم ایک یا اس سے زیادہ افراد شامل ہوں۔ خواہ یہ جماعت مسجد میں ہو یا کسی اور جگہ جیسے گھر، کام کی جگہ، یا کسی اور مناسب مقام پر۔ جیسا کہ امام ابن عبد البرؒ کی کتاب الاستذکار (2/335، دار الكتب العلمية) میں مذکور ہے، اس کے ساتھ یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ مساجد میں نماز پڑھنے کا ثواب دیگر مقامات کی نسبت زیادہ ہے، کیونکہ اس میں مسجد کی طرف چل کر جانے، وہاں ٹھہرنے اور نماز کے انتظار کا بھی اجر شامل ہوتا ہے، جیسا کہ احادیث میں اس کا ذکر آیا ہے۔
نماز کو اس کے اول وقت میں انفراداً ادا کرنا افضل ہے یا آخر وقت میں جماعت کے ساتھ ادا کرنا؟
اگر دو فضیلتیں باہم متعارض ہوں یعنی نماز کو اول وقت میں ادا کرنے کی فضیلت اور باجماعت پڑھنے کا اہتمام کرنے کی فضیلت، تو فقہاء کے درمیان اس بارے میں اختلاف ہے کہ ان میں سے کون سا عمل زیادہ افضل اور اجر وثواب کے لحاظ سے بڑا ہے۔ اس اختلاف کی بنیادی وجہ باجماعت نماز کے حکم میں فقہاء کے مختلف نظریات ہیں۔
چنانچہ جن فقہاء نے باجماعت نماز کو واجبِ عین قرار دیا ہے—جیسا کہ حنابلہ، حنفیہ کا راجح قول، اور شوافع کا ایک موقف—وہ یہ فرماتے ہیں کہ اکیلے نمازی پر واجب ہےکہ نماز کو جماعت کے وقت تک مؤخر کرے۔ وہ بغیر کسی عذر کے تنہا نماز ادا نہیں کر سکتا، کیونکہ جب کوئی واجب اور مستحب آپس میں متعارض ہو جائیں تو واجب کو مستحب پر مقدم کیا جاتا ہے، کیونکہ واجب زیادہ مؤکد اور قوی ہوتا ہے۔ لہٰذا، لازم ہوا کہ واجب یعنی جماعت کے ساتھ نماز کو مستحب یعنی اول وقت کی فضیلت پر ترجیح دی جائے۔
امام ابوالحسین قدوری حنفی نے اپنی کتاب "التجرید" (1/380، ط. دار السلام) میں فرمایا: لوگوں میں اس بات پر اختلاف ہے کہ نماز اول وقت میں پڑھنا افضل ہے یا آخر وقت میں۔ جبکہ فضیلت کا تقابل تو صرف ان چیزوں کے درمیان ہوتا ہے جو درجہ میں برابر ہوں، یعنی یا تو دونوں واجب ہوں یا دونوں مستحب۔ لیکن اگر ایک واجب ہو اور دوسرا مستحب، تو ان کے درمیان فضیلت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔" یعنی، جب جماعت کی نماز کو واجب قرار دیا گیا ہے، تو اسے اول وقت میں تنہا نماز پڑھنے کے مستحب عمل پر مقدم کیا جائے گا۔
امام ابوالسعادات بُهُوتی حنبلی نے اپنی کتاب "کشاف القناع" (1/555، ط. دار الكتب العلمية) میں فرمایا: اور جماعت کو اول وقت پر مطلقاً مقدم کیا جائے گا، کیونکہ جماعت واجب ہے اور اول وقت میں نماز پڑھنا سنت ہے، اور واجب و مسنون میں کوئی تعارض نہیں ہوتا۔" یعنی، جب واجب اور مسنون میں تعارض ہو تو واجب کو مقدم کرنا لازم ہوتا ہے۔
اور جن فقہاءِ کرام کا موقف یہ ہے کہ نماز کی جماعت سنتِ مؤکدہ ہے—جو کہ احناف کا ایک قول ہے، مالکیہ معتمد قول ، اور شافعیہ کا ایک قول ہے—یا یہ فرضِ کفایہ ہے، جو کہ شافعیہ کے ہاں اصح قول ہے، اور اس میں احناف میں سے امام کرخی اور امام طحاوی بھی انہی کے ہم خیال ہیں، اور امام مازری نے بعض مالکی فقہاء سے بھی یہی قول نقل کیا ہے، تو ان کے درمیان اس بات میں اختلاف ہوا کہ افضل کیا ہے: اول وقت میں تنہا نماز ادا کرنا، یا جماعت کے انتظار میں تاخیر کرنا، یا دونوں کو جمع کرنا۔ اس سلسلے میں چار اقوال منقول ہیں۔
پہلا قول: تنہا اول وقت میں نماز ادا کرنا، اسے مؤخر کرکے جماعت کے ساتھ آخر وقت میں پڑھنے سے مطلقاً افضل ہے۔ یہ مالکیہ کا مذہب ہے اور شافعیہ کے ایک قول ہے، کیونکہ اول وقت میں نماز ادا کرنے کی فضیلت ثابت ہے، اور یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ اول وقت اللہ کی رضا کا سبب ہے، جبکہ آخر وقت اللہ کے عفو و درگزر کا مقام ہے۔
امام خَرَشِی مالکی نے "شرح مختصر خلیل" (1/215، ط. دار الفكر) میں فرمایا: اور تنہا انسان کے لیے نماز کو اول وقت میں ادا کرنا مطلقاً افضل ہے، یعنی خواہ وہ نمازِ فجر ہو، نمازِ ظہر ہو یا کوئی اور نماز، گرمی ہو یا سردی، جب وقت کا تحقق اور استقرار ہو جائے تو تنہا نمازی کے حق میں نماز کو اول وقت میں ادا کرنا افضل ہے۔... اور تنہا شخص کے لیے افضل یہ ہے کہ وہ نماز کو مؤخر کرنے کے بجائے اول وقت میں ادا کرے، خواہ یہ تاخیر تنہا پڑھنے کے لیے ہو یا آخر وقت میں جماعت کے ساتھ پڑھنے کیلئے، جس کی اسے امید ہو۔
امام نووی شافعی نے "روضة الطالبين" (1/95، ط. المكتب الإسلامي) میں فرمایا :جہاں تک وضو والے اور وضو کی قدرت نہ رکھنے والے افراد کے لیے نماز کو اول وقت میں اکیلے ادا کرنے یا جماعت کے انتظار میں تاخیر کرنے کا تعلق ہے، تو اس بارے میں تین مختلف آراء ہیں۔ بعض نے کہا ہے کہ اول وقت میں ادا کرنا افضل ہے۔
دوسرا قول: باجماعت نماز کا انتظار کرنا، اول وقت میں اکیلے نماز ادا کرنے سے افضل ہے۔ یہ احناف کے ہاں ایک قول ہے اور شافعیہ کے ہاں بھی ایک مؤقف ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں جماعت کی سنت بھی حاصل ہو رہی ہے، جو اول وقت میں نماز ادا کرنے کی فضیلت سے بڑھ کر ہے۔
امام ابو العز حنفی نے "التنبيه على مشكلات الهداية" میں فرمایا: اور اگر کسی ایسے سبب کی بنا پر نماز مؤخر کی جائے جو تاخیر کا تقاضا کرتا ہو، جیسے تیمم کرنے والا جب وضو کے ساتھ نماز ادا کرنے کے لیے آخر وقت تک انتظار کرے، یا تنہا شخص جب جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کے لیے تاخیر کرے، یا وہ شخص جو کھڑے ہو کر نماز پڑھنے کی استطاعت حاصل کرنے کے لیے انتظار کرتا ہے، اور اسی طرح دیگر امور جن میں نماز کو اول وقت میں ادا کرنے سے بڑھ کر فضیلت حاصل ہوتی ہے، تو ایسی صورتوں میں تاخیر کرنا افضل ہے۔
امام نووی شافعی نے "روضة الطالبين" میں فرمایا: جہاں تک وضو والے یا دیگر افراد کا نماز کو اول وقت میں تنہا ادا کرنے اور جماعت کے انتظار میں تاخیر کرنے کا معاملہ ہے، تو اس میں تین طریقے ہیں... کہا گیا ہے: تاخیر افضل ہے۔"
تیسرا قول: ان دونوں (اول وقت میں نماز پڑھنے اور جماعت کے انتظار میں تاخیر کرنے) میں فضیلت کا اختلاف مختلف امور کے اعتبار سے ہوتا ہے، جن میں سے بعض درج ذیل ہیں: پہلا یقین ہونا: اگر اس جماعت کا یقین ہو، جو کہ اول وقت کی فضیلت کو ترک کرنے کی وجہ بن رہی ہے، تو تاخیر افضل ہے۔ دوسرا جماعت کے حصول کی امید ہونا: اگر کسی نے جماعت کے حصول کی امید میں تاخیر کی، تو اس میں دو قول ہیں: بعض نے تاخیر کو ترجیح دی ہے، جبکہ بعض نے اول وقت میں ہی نماز ادا کرنے کو افضل قرار دیا، جیسا کہ تیمم کرکے اول وقت میں نماز پڑھنے اور پانی ملنے کی امید پر تاخیر کرنے کے بارے میں فقہاء کا اختلاف ہے۔ تیسرا امر تاخیر کی مقدار ہے: اگر تاخیر زیادہ ہو، تو اول وقت میں تنہا نماز پڑھنا افضل ہے، اور اگر تاخیر معمولی ہو، تو انتظار کرنا افضل ہے۔ یہ شافعیہ کا تیسرا موقف ہے، جسے تیمم کے ساتھ نماز پڑھنے کے مسئلے پر قیاس کیا گیا ہے۔ اس تمام بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ جب تاخیر کسی معتبر اور یقینی سبب کی بنا پر ہو، یا یہ تاخیر معمولی ہو اور نماز کے وقت پر زیادہ اثر انداز نہ ہو، تو جماعت کے اجر کو حاصل کرنے کے لیے انتظار کرنا افضل ہوگا۔
امام نوویؒ نے "روضۃ الطالبین" (1/95) میں فرمایا: وضو والے اور دیگر افراد کے لیے اول وقت میں تنہا نماز پڑھنے اور جماعت کے انتظار میں تاخیر کرنے کے بارے میں تین طریقے منقول ہیں: بعض نے کہا کہ اول وقت میں ادا کرنا افضل ہے، بعض نے تاخیر کو افضل کہا، اور بعض نے اس بارے میں دو قول نقل کیے ہیں۔
کچھ اہل علم نے اسے تیمم کے مسئلے پر قیاس کیا ہے، اگر آخری وقت میں جماعت کا یقین ہو تو تاخیر افضل ہے، اور اگر جماعت نہ ملنے کا گمان ہو تو اول وقت میں پڑھنا افضل ہے۔ اور اگر جماعت کے ملنے کی امید ہو تو دو قول ہیں۔ اور مناسب یہ ہے کہ درمیان کا راستہ اختیار کیا جائے یعنی اگر تاخیر زیادہ ہو تو اول وقت میں پڑھنا افضل ہے، اور اگر تاخیر معمولی ہو تو تاخیر کرنا افضل ہے۔
شیخ الاسلام زکریا انصاری نے "أسنى المطالب" (1/74، ط. دار الكتاب الإسلامي) میں فرمایا: اور تنہا جو آخری وقت میں جماعت کے یقینی طور پر ملنے کی امید رکھتا ہو، اس کے لیے افضل یہ ہے کہ وہ (نماز کو) مؤخر کرے، بشرطیکہ تاخیر عرفاً بہت زیادہ نہ ہو۔ پس اگر اسے جماعت کی امید نہ ہو یا امید ہو مگر تاخیر بہت زیادہ ہو تو اس کے لئے اول وقت میں نماز پڑھنا افضل ہے۔
چوتھا قول: دونوں فضیلتوں کو جمع کرنا مستحب ہے: یعنی تنہا شخص اول وقت میں نماز ادا کرے، پھر اگر آخر وقت میں جماعت مل جائے تو دوبارہ نماز پڑھ لے۔ یہ مالکیہ کا قول ہے، البتہ امام شمس الدین بِسَاطِی اس کے خلاف ہیں، کیونکہ وہ یہ رائے رکھتے ہیں کہ اگر اکیلے نماز پڑھ لی تو اسے جماعت کے ساتھ دوبارہ ادا نہیں کرنا چاہیے۔ نیز شافعیہ کے نزدیک بھی یہی مختار قول ہے۔ اس لیے کہ اس میں دونوں فضیلتوں کو حاصل کیا جا سکتا ہے: اول وقت میں نماز ادا کرنے کی فضیلت اور باجماعت نماز کی فضیلت۔ اور نمازی ان فقہاء کے اختلاف سے بھی بچ جاتا ہے جو باجماعت نماز پڑھنے کو واجب قرار دیتے ہیں۔
امام دسوقی مالکی نے "حاشیہ علی الشرح الکبیر" (1/180) میں فرمایا: اور تنہا نمازی کے لیے افضل یہ ہے کہ نماز کو اول وقت میں ادا کرے۔ پھر اگر اسے جماعت مل جائے تو دوبارہ نماز پڑھ لے، تاکہ اسے جماعت کی فضیلت بھی حاصل ہو جاۓ، اس طرح وہ دونوں فضیلتیں پا لے گا، برخلاف اس کے اگر اس نے نماز کو مؤخر کردیا اول وقت میں نماز کو ادا نہیں کیا، کیونکہ اس صورت میں اسے صرف ایک ہی فضیلت ملے گی۔اور جماعت کے ملنے پر نماز کو دوبارہ ادا کرنے کا حکم درست ہے، برخلاف علامہ بِساطی کے [جیسا کہ انہوں نے اپنی کتاب "مغنی" میں فرمایا ہے: اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اگر کسی نے اکیلے نماز ادا کر لی تو اسے جماعت کے ساتھ دوبارہ ادا نہیں کرنا چاہیے]۔
امام نووی شافعی رحمہ اللہ نے "المجموع" (2/263، ط. دار الفكر) میں فرمایا: پس ہمارے نزدیک قولِ مختار یہ ہے کہ وہ آدمی وہی کرے جس کا نبی کریم ﷺ نے حکم دیا ہے، یعنی دو مرتبہ نماز پڑھے: پہلی بار اول وقت میں تنہا پڑھے، تاکہ اسے اول وقت کی فضیلت حاصل ہو۔ دوسری بار آخر وقت میں جماعت کے ساتھ، تاکہ جماعت کی فضیلت بھی حاصل ہو۔
اور یہی آخری قول ہم نے اختیار کیا ہے اور اسی پر عمل کرنے کی طرف ہمارا میلان ہے،تاکہ زیادہ سے زیادہ اجر اور اللہ عزّ و جلّ کا قرب حاصل ہو۔ اس کے ذریعے دونوں فضیلتیں یکجا ہو جاتی ہیں: اول وقت میں نماز ادا کرنا اور اگر بعد میں جماعت قائم ہو تو اس کا ثواب بھی حاصل کرنا۔ اس میں وارد احادیث اور فقہاء کے اقوال کے مطابق دونوں پہلوؤں کو جمع کر لیا جاتا ہے۔اس میں یہ حکمت ہے کہ تنہا شخص اول وقت میں نماز پڑھ کر اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہو جاتا ہے، کیونکہ موت کےوقت کو اللہ عز و جل کے سوا کوئی نہیں جانتا، اور پھر اگر جماعت میسر آ جائے اور ممکن ہو تو اس کے ساتھ بھی نماز ادا کر لیتا ہے۔
پس اگر کسی کے لیے دونوں فضیلتوں کو جمع کرنا دشوار ہو اور یہ ممکن نہ ہو، تو چاہے وہ اول وقت میں اکیلے نماز ادا کر لے تاکہ اسے اول وقت کی برکت اور فضیلت حاصل ہو، یا پھر جماعت کے ساتھ آخر وقت میں نماز پڑھ لے تاکہ جماعت کی سنت کو اپنائے اور اس کا ثواب حاصل کرے— دونوں صورتوں میں وہ فضیلت اور اجر سے محروم نہیں رہے گا۔ بلکہ اسے عظیم ثواب حاصل ہوگا، اور اسے اختیار ہے کہ اپنے حالات کے مطابق کسی بھی راۓ کو اپنائے، کیونکہ شرعی اصول کے مطابق جن مسائل سے دوسروں کے حقوق وابستہ نہ ہوں یا جن میں ولی الامر نے کسی مخصوص مذہب کو لازم نہ قرار دیا ہو، ان میں ایک عام شخص کسی مخصوص مذہب کا پابند نہیں ہوتا۔ وہ کسی بھی معتبر مذہب کی تقلید کرنے میں آزاد ہوتا ہے۔ شرح تنقیح الفصول" از امام شهاب الدین القَرَافِي (ص: 432، ط. الطباعة الفنية المتحدة)، ''البحر المحيط" از امام بدر الدین الزَّرْكَشِي (8/ 380، ط. دار الكتبي)، ''رد المحتار" از امام ابن عابدین (1/ 75، ط. دار الفكر)
یہ بات مدنظر رہے کہ اگر نمازی کو یقین نہ ہو کہ جماعت وقت کے اندر قائم ہوگی، یا باقی ماندہ وقت اتنا کم ہو کہ جماعت کا انتظار کرنے کی صورت میں پوری نماز وقت کے اندر ادا نہ ہو سکے، تو ایسے میں نماز کو فورًا تنہا ادا کرنا ہی افضل ہوگا۔
امام اسنوی رحمہ اللہ نے "المهمات" (2/282) میں فرمایا: یہ جو اختلاف ذکر کیا گیا ہے کہ نماز کو اول وقت میں ادا کرنا افضل ہے یا مؤخر کرنا، اسے اس شرط کے ساتھ مقید کرنا چاہیے کہ پوری نماز وقت کے اندر ادا ہو۔ اگر نماز کا کچھ حصہ وقت سے باہر چلا جائے تو پھر بلا شبہ انتظار کرکے تاخیر سے پڑھنے کا قول مرجوح ہوگا۔" یعنی اس قول کی مرجوحیت کہ جماعت کے انتظار میں تاخیر کرنا افضل ہے۔
اسی طرح یہ بات بھی قابلِ توجہ ہے کہ مسلمان کو اس بات کا مکلف نہیں بنایا گیا کہ وہ اذان سنتے ہی -یا کسی یقینی ذریعے جیسے بصری مشاہدے وغیرہ سے وقتِ نماز کے داخل ہونے کا علم ہوتے ہی- فوراً خلافِ عرف جلد بازی سے نماز ادا کرے۔ بلکہ اس کے لیے ہلکی سی مصروفیت، مختصر سی گفتگو، اور تھوڑا بہت کھانے پینے کی اجازت ہے تاکہ وہ اپنی جسمانی قوت بحال رکھ سکے اور نماز میں خشوع حاصل کر سکے۔ اسی طرح وضو کرنا، سنتِ مؤکدہ ادا کرنا اور نماز سے متعلقہ دیگر تیاریوں میں وقت لگانا بھی جائز ہے۔
امام شمس الدین خطيب شربینی نے "مغنی المحتاج" میں فرمایا: اگر کوئی شخص وقت اول میں نماز کے اسباب جیسے طہارت، اذان، ستر، چند لقمے کھانے۔۔۔ یا سنتِ مؤکدہ ادا کرنے میں مشغول ہو جائے، یا بلا ضرورت اتنی ہی مقدار میں تاخیر کرے، پھر نماز میں داخل ہو تو اسے اول وقت کی فضیلت حاصل ہو جائے گی۔ اور اس پر یہ لازم نہیں کہ وہ خلافِ عرف جلد بازی کرے، بلکہ ہلکی سی مصروفیت، کچھ گفتگو، اور قضاۓ کرنے جسے روکنے میں مشقت ہو ، پانی حاصل کرنے اور اسی طرح کے دیگر امور کی گنجائش رکھی گئی ہے۔
امام شمس الدین زرکشی نے "شرح مختصر الإمام الخرقي" میں فرمایا: وقت داخل ہونے کے بعد نماز کے اسباب میں مشغول ہو جانے سے اول وقت کی فضیلت حاصل ہو جاتی ہے۔ "التلخیص" میں کہا گیا ہے: امام مجد کا قول بھی اسی کے قریب ہے کہ طہارت حاصل کرنے، جماعت کے لیے چلنے اور اس جیسے دیگر امور میں جتنا وقت لگے، وہ بھی اول وقت میں شمار ہوتا ہے۔
خلاصہ:
اس بنا پر اور سوال کی صورت میں: اول وقت میں جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنے کا اہتمام اور اس کی رعایت کرنا، آخر وقت میں جماعت کے ساتھ یا اول وقت میں تنہا نماز پڑھنے سے زیادہ اجر وثواب کا باعث ہے۔ پس اگر اول وقت میں جماعت میسر نہ ہو تو تنہا نمازی کے لیے مستحب اور زیادہ ثواب والا عمل یہی ہے کہ وہ اپنی ذمہ داری ادا کرنے کے لیے اول وقت میں نماز پڑھ لے، پھر اگر بعد میں جماعت میں شرکت کا موقع ملے تو مستحب ہے کہ اسے ضائع نہ کرے تاکہ اسے جماعت کی فضلیت اور ثوابِ عظیم حاصل ہو۔ لیکن اگر اس کے لیے دونوں امور کو جمع کرنا دشوار ہو تو وہ اپنی سہولت کے مطابق کسی ایک کو اختیار کر سکتا ہے، اور اس پر کوئی گناہ یا حرج نہیں۔
والله سبحانه وتعالى أعلم.