کھڑے ہوکر نماز پڑھنے والے اور کرسی پر بیٹھ کر پڑھنے والے کے درمیان صف برابر کرنے کا طریقہ
Question
کھڑے ہوکر نماز پڑھنے والے اور کرسی پر بیٹھ کر پڑھنے والے کے درمیان صف میں کس طرح برابر یعنی سیدھی کی جائے؟ کیا یہ ضروری ہے کہ کرسی پر بیٹھ کر نماز ادا کرنے والا قدموں کو اپنے ساتھ کھڑےنمازی کے برابر رکھے؟ پس ایک شخص ہے جو امام کے پیچھے صف میں کرسی پر بیٹھتا ہے، وہ اپنے قدم اس شخص کے برابر رکھتا ہے جو اس کے ساتھ کھڑا نماز پڑھ رہا ہوتا ہے تاکہ صف میں برابری قائم رہے۔ یاد رہے کہ کرسی صف سے کچھ پیچھے ہونے کی وجہ سے، پیچھے کھڑے نمازی کے لئے سجدے میں رکاوٹ بنتی ہے، کیونکہ یہ پچھلے نمازی کی کچھ جگہ گھیرتی ہے۔
Answer
الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی سیدنا رسول اللہ وعلى آلہ وصحبہ ومن والاہ وبعد؛
نماز میں صفیں سیدھی رکھنے کا حکم
شریعتِ مطہرہ نے باجماعت نماز میں صفوں کو سیدھی رکھنے پر اس لیے زور دیا ہے تاکہ نمازجیسی اس عظیم عبادت کا اظہار ہو، جس میں شریعت نے مسلمانوں کے باہمی ربط اور یکجہتی کو ملحوظ رکھا ہے، تاکہ ظاہری نظم و ضبط، قلبی حاضری اور باطنی احوال سے موافق ہو۔ اسی لیے جمہور فقہاء نے اسے مستحب قرار دیا ہے، جبکہ بعض نے اس کے وجوب کا قول اختیار کیا ہے، اگرچہ سب کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اسے ترک کرنے سے جماعت باطل نہیں ہوتی۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "اپنی صفوں کو سیدھا کرو، کیونکہ صفوں کو سیدھا کرنا نماز کے قیام کا حصہ ہے۔"
اور ایک روایت میں ہے: "صفوں کو درست رکھا کرو، پس میں تمہیں اپنی پیٹھ کے پیچھے بھی دیکھتا ہوں۔" (متفق علیہ
اور امام مسلم کی ایک روایت میں ہے: "بے شک صف کو سیدھا کرنا نماز کی تکمیل میں سے ہے۔"
امام ابن بطال نے "شرح صحیح بخاری" (جلد 2، صفحہ 347، مطبوعہ مکتبہ الرشد) میں فرمایا: یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ صفوں کو درست کرنا ایک مسنون اور مستحب عمل ہے، فرض نہیں۔ کیونکہ اگر یہ فرض ہوتا تو نبی کریم ﷺ یہ نہ فرماتے: «بے شک صف کو درست کرنا نماز کے حسن میں سے ہے»، کیونکہ کسی چیز کا حسن اس کے کمال پر اضافہ ہوتا ہے، اور یہ وجوب سے بڑھ کر ایک زائد امر ہے۔"
امام ابن عبد البر نے "الاستذکار" (جلد 2، صفحہ 288، مطبوعہ دار الکتب العلمية) میں فرمایا: جہاں تک نماز میں صفوں کو سیدھا کرنے کا تعلق ہے، تو اس بارے میں متعدد صحیح اور ثابت شدہ روایات تواتر سے منقول ہیں، جن میں رسول اللہ ﷺ کے صفوں کو درست کرنے کے حکم اور خلفائے راشدین کے اس پر عمل کرنے کا ذکر ہے۔ اور اس معاملے میں علماء کے درمیان کوئی اختلاف نہیں۔"
نماز میں عذر کی بنا پر کرسی پر بیٹھ کر صف میں کھڑے ہونے کا طریقہ
کرسی پر پر نماز پڑھنے والا وہ نمازی جو فرض نماز میں قیام، رکوع یا سجدہ چھوڑنے کی رخصت رکھتا ہو اور امام کے پیچھے صف میں دوسرے نمازیوں کے ساتھ نماز ادا کر رہا ہو، تو اس کا صف کے برابر کھڑا ہونا دو صورتوں میں تقسیم ہوتا ہے، اور ہر صورت کا حکم اس عذر کے مطابق مختلف ہوگا جس کی وجہ سے وہ کرسی پر نماز پڑھ رہا ہے، نیز یہ بھی دیکھا جائے گا کہ وہ کہاں نماز ادا کر رہا ہے۔
اگر نمازی کو کرسی پر نماز پڑھنے کی رخصت رکوع اور سجدہ کی جگہ بیٹھنے کی وجہ سے دی گئی ہو، یعنی وہ قیام پر قادر ہو لیکن رکوع یا سجدے یا دونوں پر قادر نہ ہو، تو ایسی صورت میں اصل اعتبار قیام کے وقت دیگر مقتدیوں کے ساتھ برابری اور صف بندی کا ہوگا، اور اس برابری کا معیار ایڑی (یعنی پاؤں کے پچھلے حصے) کو بنایا جائے گا۔
جو شخص کرسی پر بیٹھا ہو، اگر وہ قیام پر قادر ہو، تو وہ کھڑے ہونے والوں کے حکم میں ہوگا اور اس کے لیے مستحب ہے کہ اپنی ایڑی کو صف کے برابر رکھے۔ البتہ، یہ استحباب اس شرط کے ساتھ مقید ہے کہ اس سے دوسرے نمازیوں کو کوئی تکلیف نہ پہنچے۔
امام ابن عابدین نے "رد المحتار" (1/567، ط. دار الفكر) میں امام کے ساتھ مقتدی کے کھڑے ہونے کے بارے میں فرمایا:
"(قوله: بل بالقَدم)" یعنی محاذاة (برابری) قدم کے ساتھ ہوگی۔ پس اگر مقتدی نے اپنا قدم امام کے برابر رکھا اور قد لمبا ہونے کی وجہ سے اس کا سجدہ امام سے آگے ہو گیا، تو اس میں کوئی حرج نہیں ہوگا۔ اور قدم کے برابر کھڑے ہونے کا مطلب ایڑی کے برابر ہونا ہے، لہٰذا اگر مقتدی کی انگلیاں امام سے آگے نکل جائیں لیکن اس کی ایڑی امام کے برابر ہو، تو کوئی حرج نہیں، جب تک کہ دونوں قدموں کے درمیان تفاوت بہت زیادہ نہ ہو۔
شیخ الاسلام زکریا انصاری نے "أسنى المطالب" (1/222، ط. دار الكتاب الإسلامي) میں فرمایا: آگے بڑھنے یا پیچھے ہونے میں کھڑے ہوۓ شخص کے لیے معیار ایڑی ہے، جو کہ قدم کا پچھلا حصہ ہے، نہ کہ کعب یعنی ٹخنہ ہے۔
امام ابن مفلح نے "المبدع" (2/500، ط. ركائز) میں، امام کے ساتھ یا مقتدیوں کے ساتھ کھڑے ہونے کے بارے میں فرمایا: "اور اعتبار قدم کے پچھلے حصے (ایڑی) کا ہوگا۔"
پس اگر کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھنے والے کے پیچھے کوئی ایسا شخص ہو جو کرسی کی وجہ سے ضرر یا تکلیف محسوس کرے، تو کرسی والے کے لیے قدموں کی برابری مستحب نہیں، کیونکہ اس سے دوسرے نمازیوں کو اذیت پہنچتی ہے۔ اور "نقصان کو دور کرنا واجب ہے" جیسا کہ امام ابو عیسی الوزّانی نے "النوازل الكبرى" (4/525، ط. وزارة الأوقاف والشؤون الإسلامية بالمملكة المغربية) میں ذکر کیا ہے۔
اور اگر وہ عذر جس کی بنا پر اسے کرسی پر نماز پڑھنے کی رخصت دی گئی ہے، یہ ہو کہ وہ پوری نماز میں قیام کی جگہ بیٹھے گا، یا قیام، رکوع اور سجدے کو بیٹھ کر ادا کرے گا، تو اس کے اور اس کے ساتھ کھڑے نمازیوں کے درمیان برابری کا اعتبار اس کی (مقعد) سرین سے ہوگا، نہ کہ اس کے قدموں سے، کیونکہ کرسی پر بیٹھنے والے کا حکم نماز میں بیٹھنے والے کے مانند ہوتا ہے۔ اور بیٹھنے والا اپنے ساتھ کھڑے نمازی کے برابر اپنی سرین کے مقام سے ہوگا، کیونکہ بدن کا استقرار قیام کی حالت میں قدموں پر ہوتا ہے، جبکہ بیٹھنے کی حالت میں سرین پر ہوتا ہے۔ اصل حکم قیام ہے، اور جب اصل (قیام) ممکن نہ ہو تو اس کا بدل قعود (بیٹھنا) اختیار کیا جاتا ہے۔
امام جمال الدین الاسنوی نے "المهمات" (3/321) میں فرمایا: "پس اگر نمازی بیٹھ کر نماز پڑھے تو اعتبار اس کے بیٹھنے کی جگہ کا ہوگا، یعنی سرین کا۔"
امام ابن مفلح نے "المبدع" (2/500) میں فرمایا: "پس اگر نمازی بیٹھ کر نماز پڑھے تو اعتبار بیٹھنے کی جگہ کا ہوگا۔"
یہ بات اسی صورت میں لاگو ہوگی جب کرسی کا حجم مسجد کی جگہ اور صفوں کے درمیان فاصلے کے لئے مناسب ہو۔ لیکن اگر کرسی کا سائز مسجد کی جگہ اور صفوں کے درمیان فاصلے کیلئے غیر متناسب ہو، تو بہتر اور مناسب یہی ہے کہ وہ صفوں کے پیچھے نماز پڑھے، یا مخصوص طور پر کرسی والوں کے لیے بنائی گئی علیحدہ صف میں، یا صف کے کناروں پر ایسی جگہ جہاں دوسرے نمازیوں کی نماز میں خلل کا باعث نہ ہو۔
شیخ دردیری رحمہ اللہ "الشرح الكبير" میں فرماتے ہیں: "اگر صف میں شامل ہونا مشکل ہو تو (صف کے پیچھے اکیلے) نماز پڑھنا جائز ہے، اور اگر شامل ہونا ممکن ہو تو مکروہ ہے، لیکن بہرحال اسے جماعت کا ثواب حاصل ہو جائے گا۔"
اور شیخ دردیر رحمہ اللہ کے قول " بہرحال اسے جماعت کا ثواب حاصل ہو جائے گا ''سے یہ بات مفہوم ہوتی ہے کہ اگر کرسی پر نماز پڑھنے والا پیچھے، کسی علیحدہ صف میں، یا کسی متعین جگہ پر نماز پڑھے تو اس سے صف میں برابری کے استحباب کا اجر ضائع نہیں ہوگا، اور اگر اسے پہلی صف کا ثواب ملنے والا ہو تو وہ بھی اسے حاصل ہو جائے گا؛ کیونکہ اس میں اصل اعتبار نیت اور قصد کا ہوتا ہے، جو کہ فقہاء کے ہاں ایک طے شدہ اصول ہے۔ اسی لیے فقہاء نے تصریح کی ہے کہ جو شخص کسی نیک عمل کی نیت کرے اور اسے کسی عذر کی بنا پر اس کے کرنے سے روک دیا جائے، تو اس کے اجر کو اس عمل کرنے والے قادر شخص کے برابر، بلکہ اس سے زیادہ قرار دینا بعید نہیں۔ جیسا کہ امام ابوعبداللہ قرطبی رحمہ اللہ نے "الجامع لأحكام القرآن" (8/293) میں اس اصول کو بیان کیا ہے۔ اس پر نبی کریم ﷺ کی اس حدیث سے استدلال کیا جاتا ہے: "جب بندہ بیمار ہو جائے یا سفر پر ہو، تو اس کے لیے وہی اجر لکھا جاتا ہے جو وہ صحت و اقامت کی حالت میں کیا کرتا تھا۔" (صحیح بخاری، روایت: ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ)۔
خلاصہ:
مندرجہ بالا تفصیل کی روشنی میں، سوال میں ذکر کردہ صورت میں اگر کرسی پر بیٹھنے والے نمازی کو رکوع یا سجدہ کے بدلے بیٹھنے کی رخصت دی گئی ہو، جبکہ وہ قیام پر قادر ہو، تو ایسی صورت میں امام کے پیچھے صف میں کھڑے دیگر نمازیوں کے برابر ہونے میں ایڑی کا اعتبار ہو گا۔ اور اگر کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھنے کی رخصت اسے قیام میں دی گئی ہو، یا وہ اس رخصت کی وجہ سے وہ قیام، رکوع اور سجدہ سب بیٹھ کر ادا کر رہا ہو تو، تو ایسی صورت میں امام کے پیچھے صف میں کھڑے دیگر نمازیوں کے ساتھ اس کی برابری میں سرین (بیٹھنے کی جگہ) کا اعتبار ہو گا، نہ کہ اس کے قدموں کا۔ صف کو اس طرح برابر کرنا مستحب ہے، البتہ یہ استحباب اس شرط کے ساتھ مشروط ہے کہ اس سے دوسرے نمازیوں کو کسی قسم کا ضرر یا تنگی نہ ہو۔ پس اگر کرسی کا حجم مسجد کی جگہ اور صفوں کے درمیان فاصلے کے لحاظ سے نامناسب ہو، جس کی وجہ سے وہ دوسرے نمازیوں کے لیے تنگی کا باعث بنے، تو بہتر یہ ہے کہ وہ صفوں کے پیچھے نماز ادا کرے یا ایسی جگہ کھڑا ہو جہاں وہ نمازیوں کے لیے رکاوٹ نہ بنے اور ان کے لیے کسی قسم کی تکلیف کا سبب نہ بنے۔ اس صورت میں بھی وہ سیدھی صفوں کے استحباب یا یا پہلی صف میں نماز پڑھنے کی فضیلت سے محروم نہ ہوگا، بشرطیکہ وہ اس کا ارادہ اور نیت رکھتا ہو۔
والله سبحانه وتعالى أعلم.