خلاء باز کی طہارت اور اس کی نماز
Question
خلاء باز خلاء میں طہارت کیسے حاصل کرے گا تاکہ وہ نماز ادا کر سکے؟
Answer
الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی سیدنا رسول اللہ وعلى آلہ وصحبہ ومن والاہ وبعد؛
اللہ تعالیٰ کی تخلیق کا اعجاز ہے کہ اس نے ہر جہان کے لیے مخصوص نظام اور قوانین مقرر فرمائے ہیں، جو اسے دیگر جہانوں سے ممتاز کرتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم کی پہلی آیت میں فرمایا: ﴿الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ﴾ (ترجمہ: تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں جو جو تمام جہانوں کا رب ہے۔ الفاتحہ: 2) تاکہ یہ حقیقت واضح ہو جائے کہ اس زمینی دنیا کے علاوہ بھی کئی عالم موجود ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی تخلیق کا یہ اعجاز ہے کہ اس نے ہر جہان کے لیے مخصوص نظام اور قوانین مقرر فرمائے ہیں، جو اسے دوسرے جہانوں سے ممتاز کرتے ہیں۔ چنانچہ ہر عالم کی مخلوقات کے لیے اپنے عالم کے علاوہ کسی اور عالم میں رہنا ممکن نہیں، سوائے اس صورت میں کہ وہ اس عالم کے ماحولیاتی اور موسمی حالات کے مطابق خود کو تیار کرے۔ ان جہانوں میں سے ہی ایک جہان عالمِ خلا ہے جس کے کچھ نظم و قوانین کو سائنس نے دریافت کیا ہے، اور وہاں رہنے کیلئے -اگرچہ کچھ عرصے کے لیے ہی سہی- انسان نے صلاحیت حاصل کر لی ہے۔ یہ خلا وہاں سے شروع ہوتا ہے جہاں زمین کی فضا ختم ہوتی ہے، یعنی سطحِ سمندر سے تقریباً 100 کلومیٹر کی بلندی پر۔ ماہرین نے اسی مقام کو خلا کی حد اور آغاز تسلیم کیا ہے، جسے "کارمان لائن" کہا جاتا ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں پہنچ کر طبیعیاتی (فزیکل) قوانین تبدیل ہو جاتے ہیں۔ جوں جوں انسان اس بلندی پر چڑھتا جاتا ہے، کششِ ثقل کم ہوتی جاتی ہے، آکسیجن ختم ہو جاتی ہے، اور بغیر آکسیجن پمپ کے سانس لینا مشکل ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ، وقت کا اندازہ بھی متاثر ہوتا ہے، اور اس پر دلالت کرنے والی نشانیاں واضح نہیں رہتیں۔ خلا میں انسان عدمِ وزن اور عدمِ سقوط کی کیفیت میں رہتا ہے، جس کی وجہ سے وہ زمین کے گرد چکر لگاتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ تقریباً ہر 90 منٹ میں ایک چکر مکمل کر لیتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ عقل اور علم کی بدولت انسان ایک ایسی خلائی گاڑی بنانے میں کامیاب ہو گیا ہے جو خلا میں تیرتی ہے، جسے بین الاقوامی خلائی اسٹیشن (International Space Station - ISS) کہا جاتا ہے۔ اس اسٹیشن کو ہر اس چیز سے لیس کیا گیا ہے جو انسان کو اس کے اندر رہنے کے قابل بناتی ہے، جیسے آکسیجن پمپ، فضائی دباؤ کو کنٹرول کرنے والے آلات، اور کھانے پینے کی ضروریات۔ تاہم، خلا باز کو کھانے اور پانی کے استعمال میں وہاں کے موسمی اور طبیعیاتی حالات کو مدنظر رکھنا پڑتا ہے۔
اس لیے خلا باز خاص قسم کے خشک کھانے استعمال کرتے ہیں، جو کھانے کے دوران ٹکڑوں میں بکھر کر خلا میں منتشر نہ ہوں۔ اس بات کا بھی خیال رکھا جاتا ہے کہ خلا میں پانی کی کثافت ہوا کی کثافت سے زیادہ نہیں ہوتی جیسا کہ زمین پر ہوتا ہے، لہٰذا وہاں پانی جب چھوڑا جاتا ہے تو وہ نیچے نہیں گرتا اور نہ ہی بہتا ہے، بلکہ وہ ہوا میں بلبلے کی صورت میں پھیل جاتا اور بکھر جاتا ہےخلا باز پانی خاص نلکی دار کون (Funnels with Tubes) کے ذریعے پیتے ہیں، جو اسے ہوا سے ملنےنہیں دیتی۔اسی طرح، طہارت کے لیے خلا باز پانی کے قطرے کپڑے پر ڈال کر اپنے جسم کے حصوں کو صاف کرتے ہیں، تاکہ پانی خلا میں بکھر کر خلائی گاڑی کے آلات کو نقصان نہ پہنچائے۔
خلائی گاڑی کے باہر رہنے کے لیے خلا باز کو خصوصی خلائی سوٹ پہننا ضروری ہوتا ہے، جو اسے خلا کی سخت ترین صورتحال سے محفوظ رکھتا ہے۔ یہ سوٹ آکسیجن کی فراہمی سمیت ایسے تمام آلات سے لیس ہوتا ہے جو جسم کو فضائی دباؤ، انتہائی درجہ حرارت کی تبدیلیوں، اور مضر شعاعوں سے بچاتے ہیں۔ یہ سب باتیں خلائی سائنس کے ماہرین نے بیان کی ہیں۔
خلا میں خلاء باز کی طہارت اور نماز کا طریقہ
خلاء باز کو خلا میں وضو) اور غسل کے ذریعے حدث سے طہارت حاصل کرنے کے لیے خاص طریقے اپنانا پڑتے ہیں تاکہ وہ نماز ادا کر سکے۔ یہ اس لیے ضروری ہے کیونکہ خلا میں فزکس اور طبیعیات کے قوانین زمین سے مختلف ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے طہارت کے عام طریقے ممکن نہیں رہتے۔ لہٰذا اس کی تین حالتیں ہو سکتی ہیں:
پہلی حالت:
اگر خلاء باز کے پاس پانی وافر مقدار میں موجود ہو اور اس کی اپنی ضرورت سے زائد ہو، نیز وہ اس قابل ہو کہ پانی کے قطرات اپنے وضو کے اعضا پر اس طرح ڈال سکے کہ پورا عضو تر ہو جائے، تو اس پر پانی سے طہارت (وضو) کرنا واجب ہوگی۔ اس صورت میں، اگر پانی خود بخود نہ بہے یا قطرے جسم سے الگ نہ ہوں، جس کا سبب کششِ ثقل کے فقدان اور ہوا کی کثافت میں کمی ہے، تو بھی اس پر کوئی حرج نہیں ہوگا۔ کیونکہ طہارت کے صحیح ہونے کا مدار اس بات پر ہے کہ پانی اعضاء تک پہنچ جاۓ، ان پر بہے اور اعضاء پوری طرح تر کر دے، چاہے یہ بہاؤ خود انسان کے ہاتھ سے ہی کیوں نہ ہو۔ یہی جمہور فقہاء (مالکیہ، شافعیہ، حنابلہ اور احناف میں سے امام ابو یوسف رحمہ اللہ) کا موقف ہے۔ اس کے برخلاف، ظاہر الروایہ میں احناف کے مطابق وضو کے لیے پانی کا اعضاء سے ٹپکنا اور الگ ہونا ضروری ہے۔
اور اس حالت میں پانی سے طہارت لازم ہوگی، کیونکہ اصل یہی ہے۔ تیمم، جو پانی کا بدل ہے، صرف اسی وقت جائز ہوتا ہے جب پانی موجود نہ ہو یا اس کا استعمال ممکن نہ ہو۔ پس جب پانی موجود ہو اور اس کا استعمال ممکن ہو، تو اصل طریقے (پانی سے وضو یا غسل) پر ہی عمل واجب ہوگا۔
اس پر دلیل وہ حدیث ہے جو امام دارقطنی اور امام بیہقی نے حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: پاک مٹی مسلمان کا وضو (کا ذریعہ) ہے، خواہ اسے دس سال تک کرنا پڑے، لیکن جب تمہیں پانی مل جائے تو اسے اپنی جلد پر بہاؤ، کیونکہ یہی بہتر ہے۔" (روایت: دارقطنی، بیہقی۔
علامہ ابن القصار رحمہ اللہ نے اپنی کتاب "عيون الأدلة" (1/247، ط. مكتبة الملك فهد) میں فرمایا:
"نبی کریم ﷺ کا حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے یہ فرمانا: 'جب تمہیں پانی مل جائے تو اسے اپنی جلد پر بہاؤ'، اس سے مراد ظاہر جلد ہے، یعنی وہ حصہ جسے ہاتھ میں موجود پانی سے تر کیا جا سکتا ہو، اور یہی 'غاسل' کہلاتا ہے۔"
ارور پانی کا پہنچنا دو طریقوں سے ہو سکتا ہے: پانی کے خود بہنے سے۔ یا پانی کو ہاتھ کے ذریعے اعضاء پر بہانے سے۔
علامہ کاسانی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب "بدائع الصنائع" (1/3، ط. دار الكتب العلمية) میں فرمایا: غسل سے مراد یہ ہے کہ کسی کسی مائع یعنی پانی وغیرہ کو عضو پر بہانا ہے، جبکہ مسح سے مراد صرف تر کرنا ہے۔اگر کسی نے اپنے وضو کے اعضاء کو اس طرح دھویا کہ پانی بہانے کے بجائے صرف تیل کی طرح مل لیا، تو ظاہر الروایہ کے مطابق یہ وضو جائز نہیں ہوگا۔ لیکن امام ابو یوسف رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ ایسا وضو جائز ہے۔
علامہ ابن أمير الحاج رحمہ اللہ نے "شرح منية المصلي" (ص: 47، ط. دار الكتب العلمية) میں فرمایا: ـروضة" کی عبارت یہ ہے: کہ اگر کسی نے اپنے چہرے اور وضو میں دھوئے جانے والے اعضاء پر پانی گزارا، مگر پانی بہا نہیں، تب بھی امام ابو یوسف رحمہ اللہ کے قول کے مطابق وضو جائز ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ فقہی اختلاف درحقیقت 'غسل' کی تعریف میں ہے۔ امام ابو یوسف رحمہ اللہ کے نزدیک غسل کا مطلب صرف عضو کو پانی سے تر کرنا ہے، جیسا کہ 'تحفہ' میں واضح طور پر بیان ہوا ہے۔
شیخ عِلِّيش رحمہ اللہ نے اپنی کتاب "منح الجليل" (1/92، ط. دار الفكر) میں فرمایا:وضو یا غسل کے لیے شرط یہ ہے کہ پانی عضو کے شروع سے آخر تک بہے، لیکن پانی کا اعضاء سے ٹپکنا یا بہہ کر جسم سے الگ ہونا شرط نہیں ہے۔
امام نووی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب "المجموع شرح المهذب" (1/436، ط. دار الفكر) میں فرمایا: علماء کا اس بات پر اجماع ہے کہ اگر کوئی جنبی شخص اپنے بدن پر پانی سے صرف مسح کرے اور بار بار کرے، لیکن پانی اعضاء پر بہا نہیں، تو اس کی جنابت دور نہیں ہوگی۔ بلکہ اس کے لیے اعضاء پر پانی کا بہنا شرط ہے۔
علامہ بُہوتی رحمہ اللہ نے "شرح منتهى الإرادات" (1/87، ط. عالم الكتب) میں فرمایا: اسباغ کا مطلب یہ ہے کہ پورے عضو کو پانی سے تر کیا جائے، اس طرح کہ پانی اس پر بہے۔ صرف مسح کرنا یا برف کو عضو پر پھیرنا کافی نہیں، چاہے عضو تر ہو جائے، جب تک کہ برف پگھل کر بہنے نہ لگے۔
اور اسی کی نظیر وہ ہے جس پر جمہور فقہاء کا اتفاق ہے کہ برف سے طہارت جائز ہے، اگر یہ نرم ہو اور اعضاء پر بہ سکے، چاہے اس میں پانی کی خود بخود بہنے اور ٹپکنے کی شرط موجود نہ ہو، جب برف کو پانی میں تبدیل نہ کیا جا سکتا ہو۔ پس جب برف کے ذریعے طہارت جائز ہے، تو اس پانی کے ذریعے طہارت بطورِ اولیٰ جائز ہوگی، جس نے اپنی کچھ خصوصیات کھو دی ہوں،جیسے اس میں تقطیر (ٹپکنا) تو نہ ہو مگر رخاوت (نرمی) ہو اور اس میں جسم پر پھیلنے کی صلاحیت باقی ہو۔
علامہ کاسانی حنفی رحمہ اللہ نے "بدائع الصنائع" (1/3) میں فرمایا:اگر کسی نے برف سے وضو کیا اور اس میں سے کوئی قطرہ نہ ٹپکا، تو وضو جائز نہیں ہوگا۔ لیکن اگر اس میں سے دو یا تین قطرے ٹپک پڑے، تو وضو جائز ہوگا، کیونکہ اس میں پانی کے بہنے کی شرط پوری ہو گئی، فقیہ ابو جعفر الہندوانی رحمہ اللہ سے برف سے وضو کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا:یہ مسح ہے، دھونا نہیں پھر فرمایا: اگر برف کو اس طرح پگھلایا جائے کہ پانی بہنے لگے، تو وضو جائز ہوگا۔"
خلاء (اسپیس) میں پانی برف کی شکل میں منجمد نہیں ہوتا، بلکہ یہ نرم اور باہم ملے ہوۓ قطروں کی شکل میں رہتا ہے، جو کشش ثقل نہ ہونے کی وجہ سے خودبخود نہیں بہتا۔ البتہ، جب انسان ہاتھ سے ان قطروں کو دباتا ہے تو یہ پھیل جاتے ہیں اور جسم کی زیادہ سطح کو گھیر لیتے ہیں۔ یہ کیفیت قطروں کے بہنے سے مشابہ ہے، جسے احناف نے طہارت کے لیے کافی قرار دیا ہے۔
علامہ ابو بکر ابن عربي مالکی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب "المسالك في شرح موطأ مالك" (2/60، ط. دار الغرب الإسلامي) میں فرمایا: اگر جمی ہوئی چیز (برف) پگھل جائے، تو اس سے وضو جائز ہے۔ لیکن اگر کوئی جمے ہوئے پانی (برف) سے اسی اصل حالت میں وضو کرے گا، تو دو صورتیں ہوں گی: اگر برف نرم ہو اور اس کا پانی اعضاء پر بہے، تو وضو صحیح ہوگا۔ لیکن اگر برف سخت ہو اور پگھلے بغیر صرف جسم کو چھوئے، تو وضو درست نہیں ہوگا۔
امام نووی شافعی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب "المجموع" (1/81) میں فرمایا]: اگر کسی نے برف یا اولے کو پگھلائے بغیر وضو کے لیے استعمال کیا، تو دو صورتیں ہوں گی: اگر شدید گرمی، جسم کی حرارت، یا برف کی نرمی کی وجہ سے پانی بہہ کر عضو پر پہنچ جائے، تو وضو صحیح ہوگا۔ یہی موقف صحیح ہے اور اسی پر جمہور فقہاء کا اتفاق ہے، کیونکہ اس سے عضو پر پانی بہنے کی شرط پوری ہو جاتی ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ اس طرح وضو صحیح نہیں ہوگا، کیونکہ اسے غَسل یعنی دھونا نہیں کہا جا سکتا۔۔۔ ہمارے اصحاب نے امام اوزاعی رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے کہ برف سے وضو جائز ہے، چاہے پانی نہ بھی بہے ، اور یہ وضو دھونے اور مسح کرنے والے اعضاء دونوں میں کافی ہوگا]۔ اور چونکہ خلاء میں پانی کو انسان کے عمل سے عضو پر بہایا جا سکتا ہے، تو جب پگھلائے بغیر برف سے وضو جائز ہے، تو بہتا ہوا پانی بطورِ اولیٰ وضو کے لیے جائز ہوگا۔ علامہ ابن مفلح حنبلی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب "الفروع" (1/297، ط. مؤسسة الرسالة) میں فرمایا: اگر کسی کو برف ملے، لیکن اسے پگھلانا ممکن نہ ہو، تو امام احمد رحمہ اللہ کے منصوص قول کے مطابق، وضو کے اعضاء پر مسح کرنا واجب ہوگا۔
لہٰذا یہ معلوم ہوا کہ اگر خلاء میں موجود خلا نورد کو وضو یا غسل کے لیے پانی استعمال کرنے کی قدرت ہو، تو اس پر پانی سے طہارت لازم ہوگی۔ اس وقت یہ کافی ہوگا کہ وہ پانی کی نرم بوندوں کو طہارت کی جگہوں پر بہا دے، یہاں تک کہ اسے غالب گمان ہو جائے کہ اس نے دھونے والے حصے دھو لیے اور مسح والے حصے پر مسح کر لیا۔
دوسری حالت یہ ہے کہ پانی موجود ہو، لیکن خلا نورد کی بنیادی ضرورت سے زائد نہ ہو، یا پانی زائد ہو لیکن خلاء میں پانی کی بوندیں بکھرنے اور اعضاء پر نہ ٹھہرنے کی وجہ سے ان کو گیلا کرنا اور ان پر پانی بہانا ممکن نہ ہو۔ اس صورت میں اگر پانی صرف کپڑے کے ذریعے اعضاء تک پہنچایا جا سکتا ہو، یعنی خلا نورد کو گیلے کپڑے کے ذریعے اعضاء کا صرف مسح ہی سکتا ہو تو اس صورت میں خلاء نورد پر تیمم لازم ہوگا، کیونکہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں عموم ہے]: ﴿فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا﴾ ترجمہ: ''پھر تم پانی نہ پاؤ تو پاک مٹی سے تیمم کر لو''۔(المائدة: 6)] اور اس لیے بھی کہ کپڑے کے ذریعے اعضاء کو تر کرنا مسح ہے، اسے غَسل یعنی دھونا نہیں کہہ سکتے، جبکہ پانی سے طہارت ہونے کے لیے اعضاء کو دھونا شرط ہے۔ پس جب غَسل ممکن نہ ہو، تو تیمم واجب ہو جاتا ہے۔
تیمم ایسی دو ضربوں سے کیا جاتا ہے پہلی میں دونوں ہتھیلیوں کو زمین کی جنس سے کسی پاک چیز (جیسے پاک مٹی، پتھر، یا سنگ مرمر وغیرہ) پر مار کر چہرے پر مسح کیا جائے۔دوسری ضرب میں دوبارہ ہتھیلیوں کو زمین پر مار کر دونوں ہاتھوں کا کہنیوں تک مسح کیا جائے۔
یہ تیمم کا طریقہ ہے، اور اس کے جواز پر اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان دلیل ہے: ﴿وَإِنْ كُنْتُمْ مَرْضَى أَوْ عَلَى سَفَرٍ أَوْ جَاءَ أَحَدٌ مِنْكُمْ مِنَ الْغَائِطِ أَوْ لَامَسْتُمُ النِّسَاءَ فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا﴾ ترجمہ: (اور اگر تم بیمار ہو یا سفر پر ہو یا تم میں سے کوئی قضائے حاجت سے آیا ہو یا تم نے عورتوں سے مباشرت کی ہو، پھر پانی نہ پاؤ تو پاک مٹی سے تیمم کر لو) [المائدة: 6]
حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ سیدنا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تیمم دو ضربیں ہیں: ایک ضرب چہرے کے لیے، اور ایک ضرب ہاتھوں کے لیے کہنیوں تک۔"
اس حدیث کو امام طبرانی نے ''المعجم الکبیر'' میں، امام دارقطنی اور امام بیہقی نے اپنی اپنی"السنن" میں اور امام حاکم نے "المستدرک" میں روایت کیا ہے۔
علامہ ابن نجیم نے (البحر الرائق جلد 1، صفحہ 159، دار الكتاب الإسلامي) میں فرمایا: تیمم شرعاً صرف اسی وقت جائز اور معتبر ہوتا ہے جب پانی حقیقتاً یا حکماً موجود نہ ہو۔
امام ابن عبد البر نے (الاستذكار جلد 1، صفحہ 303، دار الكتب العلمية) میں فرمایا: میرے علم کے مطابق، تمام مشرق و مغرب کے علماء کا اس بات پر اجماع ہے کہ پانی نہ ہونے کی صورت میں پاک مٹی سے تیمم ہر بیمار مسلمان یا مسافر مسلمان کے لیے طہارت ہے، خواہ وہ جنابت کی حالت میں ہو یا بے وضو ہو۔"
تیسری حالت: اگر خلا باز پانی اور تیمم دونوں کے استعمال سے عاجز ہو تو اس کا حکم فاقد الطهورين (یعنی جس کے پاس نہ پانی ہو نہ پاک مٹی) کا ہوگا۔ اس بارے میں فقہاء کے مختلف اقوال ہیں:
احناف کے ہاں مفتی بہ قول یہ ہے کہ وہ نماز کے وقت کی حرمت کو ملحوظ رکھتے ہوئے ظاہری طور پر بغیر وضو و تیمم کے نماز ادا کرے، اور جب طہارت پر قادر ہو تو اس نماز کو دوبارہ پڑھے۔
علامہ حصکفی حنفی رحمہ اللہ نے "الدر المختار" (ص: 17، ط. دار الكتب العلمية) میں فرمایا: اور جہاں تک فاقد الطهورين (یعنی جس کے پاس نہ پانی ہو اور نہ پاک مٹی) کا تعلق ہے، تو الفيض اور دیگر کتب میں ہے کہ وہ (نماز کے) وقت کی حرمت کی رعایت کرتے ہوئے ظاہری طور پر نماز ادا کرے۔ اسی قول کی طرف امام (ابوحنیفہ رحمہ اللہ) نے رجوع کیا، اور اسی پر فتویٰ ہے۔
علامہ ابن عابدین رحمہ اللہ نے اپنی حاشیہ "رد المحتار" (1/80، ط. دار الفكر) میں فرمایا: شارح کا قول (فاقد الطهورين) درمیانی دعوے کا رد ہے۔
)يتشبه) یعنی اسے وجوباً نمازیوں کی مشابہت اختیار کرنی ہوگی، چنانچہ اگر خشک جگہ ملے تو رکوع اور سجدہ کرے، اور اگر نہ ملے تو کھڑے ہو کر اشارے سے نماز پڑھے، پھر بعد میں اسے نماز دہرانا ہو گا۔
مالکیہ کے ہاں معتمد قول یہ ہے کہ وہ نہ نماز پڑھے اور نہ قضا کرے، کیونکہ وہ نماز کا مکلف ہی نہیں۔ ایک قول یہ ہے کہ وہ اپنی حالت کے مطابق نماز پڑھے اور قضا نہ کرے۔ ایک قول یہ ہے کہ نماز پڑھے اور بعد میں قضا کرے۔ جبکہ ایک اور قول یہ ہے کہ وہ نماز نہ پڑھے مگر بعد میں قضا کر لے۔
امام لخمی مالکی نے "التبصرة" (جلد 1، صفحہ 203، وزارت الأوقاف قطر) میں فرمایا:جس شخص کو نہ پانی میسر ہو اور نہ مٹی سے تیمم کا موقع ملے، اس بارے میں چار اقوال ہیں:
امام مالک اور ابن نافع کے نزدیک: نہ وہ وقت میں نماز کا مکلف ہے اور نہ بعد میں قضا کا۔
امام اشہب کے نزدیک: وہ نماز پڑھے گا قضا نہیں کرے گا۔
امام ابن قاسم کے نزدیک: وہ نماز بھی پڑھے اور قضا بھی کرے گا اگرچہ وقت نکل جائے۔
امام اصبغ کے نزدیک: وہ نماز نہیں پڑھےگا بلکہ بعد میں قضا کرے گا۔
علامہ صاوی مالکی رحمہ اللہ نے "حاشیہ علی الشرح الصغیر" (1/75، ط. الحلبی) میں فرمایا: اگر دونوں طہارت کے وسائل یعنی پانی اور مٹی میسر نہ ہوں، یا انہیں استعمال کرنے کی قدرت نہ ہو، تو نماز ساقط ہو جاتی ہے۔
مالکی مذہب یہ ہے کہ جو شخص دونوں طہارتوں (پانی اور مٹی) سے محروم ہو، یا ان کے استعمال سے عاجز ہو، جیسے مجبور یا صلیب پر چڑھایا گیا شخص، تو اس سے نماز بالکل ساقط ہو جاتی ہے، نہ اس پر ادا لازم ہے اور نہ قضا، جیسے حیض والی عورت سے نماز ساقط ہوتی ہے۔
شافعیہ کا مذہب یہ ہے کہ ایسے شخص پر اپنی حالت کے مطابق نماز پڑھنا لازم ہے، اور بعد میں اس پر اعادہ بھی واجب ہے۔
امام نووی شافعی رحمہ اللہ نے "فتاویٰ" (ص: 29، ط. دار البشائر الإسلامیہ) میں فرمایا: اگر پانی اور مٹی دونوں نہ ملیں تو اس بارے میں چار اقوال ہیں: صحیح قول یہ ہے کہ اس پر اپنی حالت کے مطابق نماز پڑھنا لازم ہے، اور بعد میں اس کا اعادہ بھی واجب ہے۔
حنابلہ کا مذہب یہ ہے کہ ایسے شخص پر اپنی حالت کے مطابق نماز پڑھنا لازم ہے اور اس پر اعادہ واجب نہیں۔
علامہ علاء الدین مرداوی رحمہ اللہ نے "الإنصاف" (1/282-283، ط. دار إحیاء التراث العربی) میں فرمایا: ان کے قول ''اگر پانی اور مٹی نہ ملے تو اپنی حالت کے مطابق نماز پڑھے'' کے بارے میں صحیح اور معتمد مذہب یہ ہے کہ ایسی حالت میں اس پر نماز پڑھنا واجب ہے، چنانچہ وہ اسی حالت میں نماز کو وجوباً ادا کرے گا۔ اور اسی پر اصحاب کا اتفاق ہے... ان کے قول "اور اعادہ میں دو روایتیں ہیں" کے بارے میں، ان دونوں روایتوں کو "الجامع الصغير"، "الهداية"، "المذهب"، "مسبوك الذهب"، "الكافي"، "المحرر"، "ابن تميم" اور دیگر کتب میں بیان کیا گیا ہے۔ ان میں سے ایک روایت یہ ہے کہ وہ اعادہ نہیں کرے گا، اور یہی معتمد مذہب ہے۔
علامہ ابو السعادات بہوتی نے "کشاف القناع" (1/171) میں فرمایا: اور جو شخص پانی اور مٹی دونوں سے محروم ہو، یا کسی رکاوٹ کی وجہ سے انہیں استعمال نہ کر سکے (جیسے کہ اسے زخم ہوں کہ وضو یا تیمم کے لیے جلد کو چھونا ممکن نہ ہو)؛ تو وہ صرف فرض نماز اپنی حالت کے مطابق وجوباً پڑھے گا۔ کیونکہ سیدنا رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے: "جب میں تمہیں کسی بات کا حکم دوں تو اپنی استطاعت کے مطابق اس پر عمل کرو"۔ نیز اس لیے کہ شرط کے عدم استطاعت سے مشروط کا ترک لازم آتا ہے، جیسے اگر کوئی لباس پہننے یا قبلہ کی سمت ہونے سے عاجز ہو۔ اور اس پر اعادہ نہیں ہے۔ کیونکہ ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا سے ایک ہار ادھار لیا، پھر وہ گم ہوگیا۔ سیدنا رسول اللہ ﷺ نے چند صحابہ کو اس ہار کی تلاش کے لیے بھیجا۔ انہوں نے ہار کو تلاش کر لیا، مگر اسی دوران نماز کا وقت ہوگیا اور ان کے پاس پانی نہیں تھا، تو انہوں نے بغیر وضو کے نماز ادا کر لی۔ پھر انہوں نے نبی کریم ﷺ سے اس کا ذکر کیا، تو اللہ تعالیٰ نے تیمم کی آیت نازل فرمائی۔ یہ حدیث بخاری و مسلم دونوں کی متفق علیہ ہے، اور رسول اللہ ﷺ نے انہیں نماز دہرانے کا حکم نہیں دیا۔ نیز، اس لیے بھی کہ وضو نماز کی ایک شرط ہے، جو دیگر شرائط کی طرح عدم استطاعت کی صورت میں ساقط ہوجاتی ہے۔
اور فتویٰ کے لیے مختار قول یہی ہے کہ وہ اپنی حالت کے مطابق نماز ادا کرے اور اس پر اعادہ لازم نہیں، تاکہ اس کے لیے آسانی ہو اور اس سے مشقت دور کی جائے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا عام فرمان ہے: ﴿وَمَا جَعَلَ عَلَيۡكُمۡ فِي ٱلدِّينِ مِنۡ حَرَجٍ﴾ ترجمہ: ''اور اس نے تم پر دین میں کوئی تنگی نہیں رکھی" (الحج: 78)۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ''جب میں تمہیں کسی چیز سے منع کروں تو اس سے اجتناب کرو، اور جب میں تمہیں کسی چیز کا حکم دوں تو جتنا ممکن ہو، اس پر عمل کرو۔" یہ حدیث امام بخاری نے روایت فرمائی ہے۔
خلاصہ:
اس بنا پر اور قاقعۂ سوال میں، خلا باز کا طہارت حاصل کرنا اس کے حالات کے مطابق ہوگا۔ اگر وہ پانی کے استعمال پر قادر ہو، یعنی اس کے پاس ضرورت سے زائد پانی ہو اور وہ وضو یا غسل کے اعضاء پر پانی کے قطرے بہا کر انہیں تر کرسکے، اس پر لازم ہوگا کہ پانی کو اعضاء پر بہا کر طہارت حاصل کرے۔ اگر وہ پانی کے استعمال سے عاجز ہو، چاہے پانی کی ضرورت کی وجہ سے ہو یا ضرورت سے زائد پانی تو ہو لیکن اعضاء پر پانی کے قطروں سے جسم گیلا کرنا اور پانی بہانا مشکل ہو، تو اس پر تیمم کرنا لازم ہوگا۔ وہ اپنی ہتھیلیوں کو دو بار زمین کی جنس سے کسی بھی دستیاب چیز -جیسے پاک مٹی، پتھر یا دیگر اشیاء- پر مار کر تیمم کرے گا۔
پہلی ضرب سے وہ اپنے چہرے کا مسح کرے گا، اور دوسری ضرب سے اپنے ہاتھوں کا مسح کرے گا کہنیوں تک۔ اگر یہ سب کچھ بھی اس کے لیے ممکن نہ ہو تو وہ اپنی حالت کے مطابق بغیر طہارت کے نماز پڑھے گا، اور اس کی نماز درست ہوگی، اور اس پر اس نماز کی قضا لازم نہیں ہوگی۔
والله سبحانه وتعالى أعلم.