نبی علیہ السلام کی حیاتِ طیبہ کا ایک مختصر جائزہ: اپنے دادا اور چچا کی کفالت میں
Question
ہم آپ کی فضیلت سے یہ چاہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی حیاتِ طیبہ پر کچھ روشنی ڈالیں جب آپ ﷺ اپنے دادا جناب عبد المطلب اور اپنے چچا جناب ابو طالب کی سرپرستی میں تھے۔
Answer
الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی سیدنا رسول اللہ وعلى آلہ وصحبہ ومن والاہ وبعد؛ اللہ تعالیٰ کی مشیّت یہ تھی کہ سیدنا رسول اللہ ﷺ اپنے والد کرامی کو اس وقت کھو دیں جب وہ ابھی اپنی والدہ آمنہ بنت وہب کے بطن مبارک میں تھے، اور پھر آپ ﷺ کی والدہ ماجدہ بھی رحلت فرما جائیں جب آپ ﷺ ابھی پانچ سال کی عمر تک بھی نہ پہنچے تھے، جبکہ آپ ﷺ ماں کی شفقت اور پرورش کی اشد ضرورت تھی۔ اور یہ اللہ کا اپنے اس برگزیدہ نبی اور رسول ﷺ پر فضل تھا کہ جو بھی سیدنا محمد ﷺ کو دیکھتا، اس کے دل میں آپ ﷺ کی محبت پیدا ہو جاتی۔
اور جب سے آپ ﷺ کی والدہ ماجدہ سیدہ آمنہ بنتِ وہب کا وصال ہوا، ان کے دادا جناب عبد المطلب نے آپ ﷺ کی کفالت کی ذمہ ذاری سنبھالی۔ آپ نبی کریم ﷺ سے بے حد محبت کرتے تھے، شفقت اور مہربانی سے آپ ﷺ کا خیال رکھتے، اور پوری کوشش کرتے کہ آپ کے پوتے کو یتیمی اور محرومی کا احساس نہ ہو۔ لیکن تقدیر کا فیصلہ یہی تھا کہ سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ کو اپنے دادا سے بھی کھونا پڑے۔ جناب عبد المطلب بہت زیادہ عمر رسیدہ ہو چکے تھے، اس لیے وہ زیادہ عرصہ زندہ نہ رہ سکے تاکہ اپنے پوتے کی پرورش اور دیکھ بھال کا سلسلہ جاری رکھ سکیں۔ چنانچہ سیدہ آمنہ کے وصال کے صرف دو سال بعد عبد المطلب بھی وفات پا گئے، اور اس وقت سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ ابھی آٹھویں سال میں تھے۔ اپنے دادا کی وفات پر آپ ﷺ کو گہرا صدمہ پہنچا، کیونکہ وہی آپ کے لیے والد اور والدہ دونوں کے پیار کا نعم البدل تھے۔
اور جناب عبد المطلب کی وفات کے بعد آپ ﷺ کے چچا جناب ابو طالب نے آپ ﷺ کی کفالت سنبھالی۔ انہوں نے آپ کو اپنے بچوں کے ساتھ رکھا اور اپنے بھتیجے کے حق کی پوری طرح ادائیگی کی۔ وہ آپ ﷺ کو اپنے بچوں پر ترجیح دیتے، آپ کا خاص احترام اور قدر کرتے۔ چالیس سال سے زیادہ عرصے تک وہ آپ ﷺ کی حمایت اور حفاظت کرتے رہے، اور آپ کی خاطر لوگوں سے دوستی بھی کرتے اور دشمنی بھی مول لیتے۔
سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ نے اپنے چچا جناب ابو طالب کے گھر پرورش پائی، اور عمر کے ساتھ ساتھ آپ ﷺ کے شعور وفہم میں بھی گہرائی آتی گئی۔ آپ ﷺ نے اصرار کیا کہ وہ اپنے چچا کے معاشی بوجھ میں ان کا ہاتھ بٹائیں، کیونکہ جناب ابو طالب کے اہل وعیال کے افراد زیادہ تھے مگر ان کے مالی وسائل محدود تھے۔ جب سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ کی عمر بارہ برس کو پآپ ﷺ کے چچا نے شام کے تجارتی سفر پر جانے کا ارادہ کیا، اس امید میں کہ اللہ تعالیٰ ان کے لیے کچھ معاشی آسانی پیدا فرما دے۔ سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ نے بھی اس سفر میں اپنے چچا کے ساتھ جانے پر اصرار کیا۔ بعض روایات کے مطابق، اس سفر کے دوران آپ ﷺ کی ملاقات نصرانی راہب "بحیرا" سے ہوئی۔ اس راہب نے آپ ﷺ میں نبوت کی وہ نشانیاں دیکھیں جن سے وہ اپنی مقدس کتابوں کے مطالعے کے ذریعے واقف تھا۔ چنانچہ اس نے جنابِ ابو طالب کو مشورہ دیا کہ وہ فوراً مکہ واپس لوٹ جائیں اور اپنے بھتیجے کو یہودیوں کے شر سے محفوظ رکھیں۔
جب سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ اپنے چچا کے ساتھ مکہ واپس آئے تو آپ ﷺ نے یہ گوارا نہ کیا کہ اپنے چچا پر بوجھ بنیں۔ آپ نے ایسا کام کرنے کی خواہش کی جس سے اپنا روزگار خود کما سکیں اور اپنی ضروریات پوری کر سکیں۔ چنانچہ آپ ﷺ نے بکریاں چَرانے کا کام کیا اور جوانی تک اسی پیشے سے وابستہ رہے۔ پھر آپ ﷺ نے سیدہ خدیجہ بنت خویلد رضی اللہ عنہا کے مال سے تجارت کا آغاز کیا اور اس میں غیرمعمولی کامیابی حاصل کی۔ اس برکت کا نتیجہ یہ نکلا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کی شادی سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا سے کر دی۔
والله سبحانه وتعالى أعلم.