نصف شعبان کی رات کی فضیلت پر دلائل

Egypt's Dar Al-Ifta

نصف شعبان کی رات کی فضیلت پر دلائل

Question

گزارش ہے کہ نصف شعبان کی رات کی فضیلت پر کچھ دلائل بیان فرمائیں۔

Answer

الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی سیدنا رسول اللہ وعلى آلہ وصحبہ ومن والاہ وبعد؛

شعبان کے مہینے کی فضیلت

شعبان ان مہیںوں میں سے ایک ہے جنہیں اللہ سبحانہ وتعالی نے خصوصی طور پر پسند فرمایا اور انہیں عظیم مرتبہ عطا کیا ۔ اللہ نے اس مہینے کو ایک بلند مقام اور عظیم مرتبے سے نوازا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس مہینے کے دنوں میں روزے رکھا کرتے تھے کیونکہ یہ وہ مہینہ ہے جب اعمال آسمان پر اٹھائے جاتے ہیں۔ حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا: "یا رسول اللہ، آپ شعبان کے مہینے میں اتنے روزے کیوں رکھتے ہیں؟" تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "یہ ایسا مہینہ ہے جس سے لوگ غافل ہوتے ہیں، رجب اور رمضان کے درمیان۔ اور یہ وہ مہینہ ہے جس میں اعمال رب العالمین کی طرف اٹھائے جاتے ہیں۔ مجھے پسند ہے کہ میرا عمل اس وقت اٹھے جب میں روزے سے ہوں۔" یہ حدیث ابن ابی شیبہ، اور بغوی نے "مسند" میں، نسائی نے "السنن الصغری" میں (یہ الفاظ السنن الصغری کے ہیں)، اور بیہقی نے "فضائل الأعمال" میں روایت کی ہے۔

نصف شعبان کی رات کی فضیلت

پھر اللہ تعالیٰ نے اس ماہ شعبان کی نصف رات اور اس کے دن کو دوسرے دنوں اور راتوں پر خصوصی فضیلت عطا فرمائی ہے، اور اس رات میں قیامِ لیل اور اس کے دن میں روزے کے ذریعے اس کی فیوضات وبرکات سمیٹے کی ترغیب دی ہے؛ تاکہ اس کی فضیلت اور اس میں نازل ہونے والی برکات اور خیرات حاصل کی جا سکیں۔

اور یہ بات کتاب و سنت، صحابہ کرام، تابعین اور ان کے بعد کے سلف و خلف کے اقوال سے ثابت ہے، اور اسی پر آج تک عمل جاری ہے۔

قرآن سے شبِ نصف شعبان کی فضیلت پر دلائل:

جہاں تک کتاب اللہ یعنی قرآنِ مجید کا تعلق ہے، تو اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿فِيهَا يُفْرَقُ كُلُّ أَمْرٍ حَكِيمٍ﴾ [الدخان: 4] کی تفسیر میں آیا ہے کہ یہ آیت شبِ نصف شعبان کے بارے میں ہے؛ اس رات میں سال بھر کا فیصلہ کیا جاتا ہے، زندہ رہنے والوں اور مرنے والوں کے بارے میں لکھا جاتا ہے، اور حج کے لیے جانے والوں کے نام لکھے جاتے ہیں؛ پھر اس میں نہ تو کسی کا اضافہ ہوتا ہے اور نہ ہی کسی کی کمی۔ جیسا کہ امام طبری نے اپنی کتاب "جامع البيان" (22/ 10، ط. مؤسسة الرسالة)، ابن ابی حاتم نے "تفسير القرآن العظيم" (10/ 3287، ط. مكتبة نزار)، امام قشیری نے "لطائف الإشارات" (3/ 379، ط. الهيئة المصرية العامة للكتاب)، امام کرمانی نے "غرائب التفسير" (2/ 1073، ط. دار القبلة)، امام بغوی نے "معالم التنزيل" (4/ 172، ط. دار إحياء التراث) اور دیگر مفسرین نے نقل کیا ہے۔

سنت سے شبِ نصف شعبان کی فضیلت پر دلائل:

اور جہاں تک سنت نبوی کا تعلق ہے: تو سیدنا مولا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سیدنا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب شبِ نصف شعبان ہو، تو اس رات میں قیام کرو اور دن میں روزہ رکھو، کیونکہ اللہ تعالی اس رات سورج غروب ہونے کے وقت آسمانِ دنیا پر (اپنی شان کے مطابق) نزول کرتے ہیں اور فرماتے ہیں: کیا ہے کوئی مجھ سے معافی طلب کرنے والا کہ میں اسے معاف کر دوں؟ کیا ہے کوئی رزق طلب کرنے والا کہ میں اسے رزق عطا کر دوں؟ کیا ہے کوئی مبتلا کہ میں اسے شفا عطا کر دوں؟ کیا ہے  کوئی ایسا ؟ کیا ہے  کوئی ایسا ؟ یہاں تک کہ فجر کا وقت آ جاتا ہے۔
یہ حدیث ابن ماجہ نے اپنی "سنن" میں نقل کی ہے اور یہ الفاظ سننِ ابنِ ماجہ کے ہی ہیں جبکہ اس کو امام  الفاکہی نے "أخبار مكة"، ابن بشران نے "أماليه"، اور امام بیہقی نے "شعب الإيمان" میں بھی ذکر کیا ہے۔

ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ سیدنا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: یقیناً اللہ تعالی نصف شعبان کی رات آسمان دنیا پر نزول فرماتے ہیں اور کلب کی بکریوں کے بالوں کی تعداد سے زیادہ لوگوں کی مغفرت فرماتے ہیں۔
یہ حدیث ابنِ راہویہ، امام احمد نے "المسند" میں، امام ترمذی اور ابن ماجہ نے "السنن" میں - اور یہ الفاظ سننِ ابنِ ماجہ کے ہی ہیں- اور امام بیہقی نے "شعب الإيمان" میں ذکر کی ہے۔

ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے:  اللہ تعالی چار راتوں میں خیر کے دروازے کھول دیتے ہیں: عید الاضحی کی رات، عید الفطر کی رات، نصف شعبان کی رات؛ اس رات میں موت اور رزق لکھے جاتے ہے، اور اس میں ہر حاجی کا نام لکھا جاتا ہے، اور یومِ عرفہ کی رات اذان تک۔
یہ روایت دارقطنی نے "غرائب مالك" میں، خطیب نے "الرواة عن مالك" میں، ابن الجوزی نے "مثير العزم" میں، اور ديلمی نے "الفردوس" میں نقل کی ہے۔

اسی طرح کی اور بہت سی احادیث ہیں جو آئمۂ کرام نے اپنی تصنیفات میں ذکر کی ہیں؛ یہاں تک کہ انہوں نے اس رات کے بارے میں الگ سے ابواب بھی مرتب کیے ہیں۔ امام ترمذی اور امام ابن ماجہ نے اپنی اپنی "سنن" میں اس موضوع پر باب قائم کیے ہیں: (باب ما جاء في ليلة النصف من شعبان)، ابن ابو عاصم نے اپنی "السنة" میں باب قائم کیا: (باب ذكر نزول ربنا تبارك وتعالى إلى السماء الدنيا ليلة النصف من شعبان، وَمَطْلَعِهِ إلى خلقه)، اور بیہقی نے "فضائل الأوقات" میں، اور بغوی نے "شرح السنة" میں (بابٌ فِي فَضْلِ لَيْلَةِ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ) کے ناموں سے ابوب قائم کئے ہیں۔

اگرچہ اس باب کی بعض احادیث ضعیف ہیں، مگر کثرتِ طرق اور کثرتِ رواۃ کی وجہ سے مجموعی طور پر یہ احادیث ایک دوسرے کی تائید کرتی ہیں؛ اس لئے ان سے استدلال کیا جا سکتا ہے۔ علامہ مبارکپوری نے "تحفة الأحوذي" (3/ 364-367، ط. دار الكتب العلمية) میں فرمایا ہے: [باب ما جاء في ليلة النصف من شعبان... یہ تمام احادیث مجموعی طور پر ان لوگوں کے خلاف دلیل ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ نصف شعبان کی رات کی فضیلت میں کچھ ثابت نہیں ہے]۔

شبِ نصف شعبان کی فضیلت میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اقوال

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اقوال میں آیا ہے کہ سیدنا مولا علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: " مجھے یہ پسند ہے کہ آدمی اپنے آپ کو چار راتوں میں مشغول کرے: عید الفطر کی رات، عید الضحی کی رات ، نصف شعبان کی رات، اور رجب کی پہلی رات"۔ یہ قول حافظ ابن جوزی نے اپنی کتاب "التبصرة" میں ذکر کیا ہے (2/ 20، ط. دار الكتب العلمية)۔

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: "پانچ راتیں ایسی ہیں جن میں دعا رد نہیں کی جاتی: جمعہ کی رات، رجب کی پہلی رات، نصف شعبان کی رات، اور دونوں عیدوں کی راتیں"۔ یہ حدیث امام عبد الرزاق نے اپنی کتاب "مصنف" میں اور امام بیہقی نے "شعب الإيمان" اور "فضائل الأوقات" میں نقل کی ہے۔

شبِ نصف شعبان کی فضیلت میں تابعین رحمہم اللہ سے مرویات

تابعین اور ان کے بعد والوں سے بھی نصف شعبان کی رات کی فضیلت میں منقول ہے: حضرت عمر بن عبد العزيز نے بصرة کے والی عدي بن أرطاة کو خط لکھا: "تمہیں سال میں چار راتوں کو خاص اہمیت دینی چاہیے؛ کیونکہ ان راتوں میں اللہ تعالیٰ اپنی رحمت کو بھرپور طریقے سے نازل فرماتا ہے: رجب کی پہلی رات، نصف شعبان کی رات، عید الفطر کی رات، اور عید الاضحی کی رات"۔ یہ بات علامہ قوام السنة نے "الترغيب والترهيب" (2/393) میں اور حافظ ابن الجوزی نے "التبصرة" (2/20-21) میں ذکر کی ہے۔

حضرت خالد بن معدان نے کہا: "سال میں پانچ راتیں ایسی ہیں؛ جو شخص ان پر ہمیشہ عمل کرے، ان کے ثواب کی امید رکھے، ان کے متعلق اللہ کے وعدے کی تصدیق کرے، اللہ اسے جنت میں داخل فرمائے گا: رجب کی پہلی رات، اس رات میں قیام کرے اور دن میں روزہ رکھے، نصف شعبان کی رات، اس رات میں قیام کرے اور دن میں روزہ رکھے، عید الفطر کی رات ، عید الاضحی کی رات، اور عاشوراء کی رات، اس رات میں قیام کرے اور دن میں روزہ رکھے۔"۔ یہ بات ابو بکر الخلال نے "فضائل شهر رجب" (ص: 75 ط. دار ابن حزم) میں ذکر کی ہے۔

حضرت عطاء بن یسار نے فرمایا: "کوئی بھی رات شب قدر کے بعد، شبِ نصف شعبان سے افضل نہیں ہے؛ اللہ تعالیٰ اس میں آسمانِ دینا پر نزول فرماتے ہیں اور مغفرت فرماتے ہیں، سوائے مشرک، جھگڑالو، یا قطع رحمی کرنے والے کے"۔ اسے علامہ لالکائی نے "شرح أصول اعتقاد اہل السنة" (3/ 499) میں ذکر کیا ہے۔

شبِ نصف شعبان کی فضیلت بیان کرنے کیلئے علماء کرام کا اہتمام

علماء نے اس بابرکت رات کی اہمیت اور فضل کو مدنظر رکھتے ہوئے اس پر خصوصی توجہ دی ہے، اور اس کی فضیلت، اس کے احیاء، اور اس کے خصائص کو بیان کرنے کے لیے حدیثی کتابچے اور خصوصی رسائل مرتب کیے ہیں۔جیسے:

حافظ ابن الدبیثی کی "لیلة النصف من شعبان وفضلها"، جو "الذیل على تاریخ بغداد" کے مصنف ہیں

امام ابن حجر ہیتمی کی "الإيضاح والبیان لما جاء في ليلتي الرغائب والنصف من شعبان"

ملا علی القاری کی "التبیان في بیان ما في النصف من شعبان"

علامہ سالم سنہوری کی "فضائل ليلة النصف من شهر شعبان"

علامہ محمد حسنین مخلوف کی "رسالة في فضل ليلة النصف من شهر شعبان"

علامہ عبد اللہ بن الصدیق الغماری کی "حسن البيان في ليلة النصف من شعبان"

امام الرائد شیخ محمد زکی الدین ابراہیم کی "ليلة النصف من شعبان في ميزان الإنصاف العلمي"وغیرہ۔

والله سبحانه وتعالى أعلم.

Share this:

Related Fatwas